مولانا کا مارچ، چند تاثرات
مولانافضل الرحمن کا آزادی مارچ اپنے اہم ترین حصے میں داخل ہوگیا۔ سندھ اور پنجاب سے ہوتے ہوئے وہ اسلام آباد پہنچ گئے۔ ان سطروں کے پڑھے جانے تک ان کے اسلام آباد میں قیام کے حوالے سے اپ ڈیٹس آپ کے سامنے آ چکی ہوں گی۔ میں صرف ان کے اس مارچ کے حوالے سے اپنے چند تاثرات بیان کرنا چاہوں گا۔ مولانانے اب تک کیا حاصل کیا، کیا کھویا؟
پہلے مثبت نکات پر بات کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے اس مارچ کے ذریعے سیاسی طور پر خاصا کچھ حاصل کیا ہے۔ شارٹ ٹرم یا قلیل المدتی فوائد انہیں ملے ہیں۔ اس مارچ سے پہلے مولانا کی وجہ شہرت خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی پشتون بیلٹ کے ایک لیڈر کی رہی ہے۔ اسمبلی میں جودرجن بھر نشستیں لینے کی قوت رکھتا اور بیشتر حکومتوں کا حصہ بنا رہا۔ 2002ء میں ایم ایم اے کی کامیابی ایک استثنا تھا، ورنہ نوے کے عشرے میں ہونے والے الیکشنز اور پچھلے تینوں انتخابات 2008، 2013، 2018ء میں مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کی کم وبیش یہی پوزیشن رہی۔ خیبر پختون خوا میں جنوبی اضلاع ان کا پاور بیس ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، لکی مروت، بنوں، کوہاٹ وغیرہ۔ دیگر اضلاع سے بھی انہیں اکا دکا نشست مل جاتی ہے، مگر زیادہ اثرورسوخ جنوبی اضلاع میں رہا۔ بلوچستان میں ان کی پارٹی محمود اچکزئی کی پختون خوا میپ کے مقابل(پشین، لورالائی، ژوب وغیرہ میں ) لڑتی ہے۔ کبھی یہ میدان مارتے ہیں تو کبھی وہ۔ جے یوآئی کا کچھ اثر ورسوخ قلعہ سیف اللہ، قلات وغیرہ میں بھی رہا۔ پنجاب سے انہیں کبھی نشست نہیں ملی۔ اسی طرح کراچی میں ہمیشہ کمزور رہے ہیں، البتہ اندرون سندھ ان کی ایک آدھ پاور پاکٹ ہے جہاں کچھ ووٹ بینک موجود ہے۔ یہ سب نقشہ ایک دوسرے درجے کی نیم قومی سیاسی جماعت یا پریشر گروپ کا بنتا ہے۔ اپنے اس آزادی مارچ سے مولانا نے اپنا سیاسی قدبلند کیا ہے، ان کا سیاسی وزن بھی بڑھا۔ وہ اس وقت سیاست کی سینٹر سٹیج پر کھڑے مین پلیئر ہیں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ شائد ہی کسی مذہبی سیاسی جماعت کے لیڈرنے ایسی کارکردگی ماضی میں دکھائی ہو۔
مولانا فضل الرحمن نے یہ سب کچھ بڑی مستقل مزاجی، عمدہ پلاننگ اور آہنی قوت ارادی استعمال کر کے کیا۔ الیکشن میں انہیں اپنی آبائی نشستوں پر شکست ہوئی۔ شدید جذباتی دھچکا پہنچا۔ الیکشن کے فوری بعد انہوں نے شعلہ برساتی تقریریں کیں۔ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ مولانا کو پسپا ہونا پڑا، مگر وہ نچلے نہ بیٹھے۔ اس مارچ کی تیاری وہ پچھلے ایک سال سے کر رہے تھے۔ پارٹی کے اندر کچھ تنظیمی تبدیلیاں کیں، پھر ملین مارچ کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سے کارکن چارج ہوا۔ حتیٰ کہ مولانا اس پوزیشن میں آ گئے کہ اپنی پارٹی کی تمام تر قوت مارچ میں جھونک سکیں۔
اگلا اہم کام انہوں نے اِدھر اُدھر ہر ایک سٹیک ہولڈر سے رابطے، اسے انگیج کر کے کیا۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ سے تو مستقل رابطوں میں رہے۔ بلوچستان اور کے پی کے قوم پرستوں کے ساتھ گہرے تعلق قائم کئے، جو ہمیشہ سے ان کے مخالف ہیں۔ محمود اچکزئی اور ان کی جماعت اگرمقامی سطح پر روایتی مخالف مولانا کی حمایت میں ساتھ چل پڑے تو اسے کامیابی ہی کہنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک بھر میں ہر اہم، طاقتور حلقے سے مولانا نے رابطے بڑھائے۔ کسی کے پاس چند ہزار ووٹ تھے تو انہیں بھی آن بورڈ لینے کی کوشش کی۔ ایک کمیٹی مغربی سفارت کاروں سے رابطے کرنے، ان کے شکوک دور کرنے کے لئے بنائی۔ مختلف اہم ملاقاتیں کیں۔ تاجروں، صنعتکاروں، سرمایہ داروں سے بھی رابطے کئے۔ اپنی اصل قوت دیوبندی مدارس پر ظاہر ہے پوری توجہ دی گئی۔ اس بار دیگر مسالک سے بھی رابطے ہوئے۔ ایک کمیٹی صرف پیر ومشائخ حضرات سے ملاقاتوں کے لئے بنائی گئی۔ ظاہر ہے یہ تمام سافٹ امیج بلڈنگ تھی۔
تحریک انصاف نے اپنی دیگر حکومتی غلطیوں کی طرح اس حوالے سے بھی غلطیاں اور مس کیلکولیشن کی۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو سیریس لیا ہی نہیں۔ یوں لگتا ہے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اس کی پروا ہی نہیں تھی کہ مولاناکامیاب مارچ کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ شائد سمجھتے تھے کہ مولانا سے "نمٹنا "ان کی ذمہ داری ہے ہی نہیں۔ پچھلے ایک سال میں خان صاحب اور ان کی جماعت کے ہر قابل ذکر شخص نے مولانا اور ان کے ساتھیوں، کارکنوں کی جی بھر کی تضحیک، توہین کی۔ انسلٹ کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیا۔ ابھی چند دن پہلے جب مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا تھا، وزیراعظم نے دانستہ طور پر مولانا پر ایک رکیک حملہ کیا۔ ایسا جملہ کہا جو نہیں کہنا چاہیے تھا۔
تحریک انصاف میں ایک بار پھر ایسے تجربہ کار، ہوشمند لوگوں کی شدید کمی محسوس ہوئی جو کسی بحرانی صورتحال میں اپنے سیاسی مخالفین یا غیر جانبدار لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکیں۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں۔ تحریک انصاف میں ایسا کون ہے؟ لے دے کر پرویز خٹک، وہ بھی.۔ شاہ محمود قریشی ہوسکتے ہیں، مگر ان کے اپنے عزائم بھی کم بلند نہیں۔ جہانگیر ترین خرید وفروخت میں ماہر ہیں، سنجیدہ مذاکرات ان کا شعبہ نہیں۔ اتحادیوں میں چودھری شجاعت کے علاوہ کوئی نام نہیں۔ عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ نصراللہ دریشک اور ان کی طرح کے تجربہ کار لوگوں کو کابینہ میں شامل کرتے۔ ایسے لوگ جو نرم خو ہوں، تعلقات بنھا سکتے ہوں، وقت پڑنے پر ہر ایک سے رابطہ کر سکیں۔ جو مذاکراتی کمیٹی بنائی گئی، اس کی بھی تُک سمجھ نہیں آئی۔ چیئرمین سینٹ کو شامل کرنا تو مولانا فضل الرحمن کو چڑانے کے مترادف تھاجوابھی چند ہفتے قبل ان کے خلاف عدم اعتماد تحریک لانے میں پیش پیش رہے تھے۔
تحریک انصاف نے البتہ ایک کام عقلمندی اور دانشمندی سے انجام دیا۔ انہوں نے مولانا کے مارچ کو روکنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ مختلف حلقوں کی جانب سے یہ تجویز دی گئی تھی۔ عمران خان نے اس حوالے سے برداشت کی پالیسی اپنائی۔ اس کے فائدہ ہوا۔ مارچ پرامن رہا اور کسی بھی قسم کی پریشانی پیدا نہیں ہوئی۔ اگر مارچ روکا جاتا تو احتجاج ملک بھر میں پھیل جاتا اور مولانا یہ جنگ شروع کئے بغیر ہی جیت جاتے۔ مولانا نے مارچ سندھ سے شروع کر کے اسلام آباد تک پہنچا دیا، یہ ان کی کامیابی ہے۔ انہیں ایک بڑا نقصان البتہ پنجاب کے سفر، خاص کر لاہور کے جلسہ میں پہنچا۔ مولانا کا لاہور میں جلسہ بہت مایوس کن رہا۔ ان کے پاس لوگ اتنے کم تھے کہ مینار پاکستان کے گرائونڈ میں جلسہ کرنے کے بجائے انہیں آزادی فلائی اوور کے نیچے جلسہ کرنا پڑا۔ کسی فلائی اوور کے نیچے جلسہ کرنا تو مضحکہ خیز بات ہے۔ کچھ لوگ فلائی اوور کے اوپر اور باقی نیچے، جبکہ ایک طرف سڑک کھلی ہے۔ ، عذر یہ کہ میٹرو کے چلنے کے لئے راستہ کھول رکھا ہے۔ حقیقت یہ کہ لوگ نسبتا کم تھے تو جلسہ کو طویل کرنے کے لئے ایسا مصلحتاً کرنا پڑا۔ مولانا ماضی میں مینار پاکستان کے گرائونڈ میں بڑا جلسہ کر چکے ہیں۔ اس بار انہیں ان کے اتحادیوں خاص کر ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے مایوس کیا۔ ن لیگ نے تو ایک طرح سے بدعہدی کی۔ میاں نواز شریف چند دن پہلے اعلان کر چکے تھے کہ ہم مارچ کی بھرپور حمایت کریں گے۔ عین وقت پر ایسا نہیں کیا۔ مولانا فضل الرحمن کی کوشش کے باوجود ان سے ملاقات بھی نہیں کی۔ میاں صاحب ہسپتال میں ہیں، مگر وہ اپنے خاندان والوں، پارٹی رہنمائوں سے بھی ملتے رہے ہیں۔ اگر چند منٹ مولانا کے ساتھ مل لیتے تو اس احتجاجی مارچ کو بھرپور قوت، سپورٹ مل جاتی۔ شریف برادران نے ایسا مصلحتاً نہیں کیا۔ اس کی وجہ وہ ہی بتا سکتے ہیں۔ ممکن ہے پس پردہ ان کے کسی اور سے مذاکرات یا کچھ اور معاملہ چل رہا ہو۔ ادھر پیپلزپارٹی نے بھی مولانا کے مارچ اور لاہور جلسہ کے شرکا بڑھانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ان کے پاس زیادہ کچھ دینے کو ہے بھی نہیں، مگر جتنا کر سکتے تھے، وہ بھی نہیں کیا۔ ممکن ہے اسلام آباد کے جلسے میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے مرکزی لیڈر شریک ہوں، مگر یہ صرف حاضری لگوانے کے برابر ہے۔
مولانا اپنے مارچ کے ساتھ اسلام آباد پہنچ ہی چکے ہیں۔ یہ مگر مولانا کا اپنا مارچ ہی ہے، اسے اپوزیشن کا احتجاجی مارچ نہیں کہا جا سکتا۔ بڑی اپوزیشن جماعتیں شامل نہ ہونے سے یہ مشترکہ اپوزیشن مارچ نہیں بنا۔ دوسرا اس میں پنجاب کا ووٹ بینک، عوامی قوت کا وزن شامل نہیں۔ مولانا کا تمام تر تکیہ اپنے جماعتی کارکنوں، بلوچستان کی پشتون بیلٹ کے قوم پرستوں اور خیبر پختون خوا کے کارکنوں، حامیوں پر ہوگا۔ پنجاب جو نصف پاکستان ہے، اس کے اور سندھ کے مینڈیٹ کے بغیر کوئی بھی احتجاجی تحریک موثرنہیں ثابت ہوسکتی۔ مولانا کے حامیوں کے ساتھ معذرت کے ساتھ، یہ کہنا چاہوں گا کہ مولانااپنی آدھی جنگ اسلام آباد پہنچے بغیر ہی ہار گئے، اگرچہ اس کا سبب ان کے اتحادیوں کی بدعہدی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بدلتے حالات کے مطابق مولانا کیا نئی حکمت عملی بناتے ہیں۔ ان کے پاس مناسب تعداد میں لوگ اب بھی موجود ہیں، مگر اسے عوامی سونامی نہیں کہا جا سکتا۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہ منظر نہیں جس کا تصور لے کر مولانا نے مارچ شروع کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مولانا کا آخری کارڈ کیا ہے؟ وہ اپنے جلسہ کے بعد کیا اعلان کرتے ہیں؟ اس اعلان اور پھر اس کے مضمرات پر بہت طے ہوسکے گا۔