"مئے عاری" وقت

رات دن کام کرنے والوں کی زبان پر بھی یہ جملہ ہوتا ہے کہ گزرا وقت ہاتھ نہیں آتا لیکن ان کے سامنے پیر ہر ہفتے آ جاتا ہے۔ ناروے سویڈن ڈنمارک وغیرہ یورپ کے وہ کھلے ڈلے ممالک ہیں جو کہ قطب شمالی کے ہمسایہ شمار ہوتے ہیں یہاں اگر رات شروع ہو جائے تو چھ ماہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اور سورج میں بھی عید کے چاند سی نزاکتیں آ جاتی ہیں اور ایسا ہر سال ہوتا ہے جب یہ چھ ماہ دن کو لڑ جائیں تو یہ دن بھی چھ ماہ تک رات کے انتظار میں آدھ مویا سا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں سورج چھ ماہ تک بغیر تھکاوٹ کے ایک آوارہ منش کی طرح اپنے دردوبام سے باہرنکلا رہتا ہے اور رات کی کوئی فریاد نہیں سنتا۔ کبھی دن رات کو ترستا ہے اورکبھی رات دن کے انتظار میں۔۔
قدرت کی اس کارہ گری کی وجہ سے وہاں بہت ترقی ہو رہی ہے وہ اس وجہ سے نہیں کہ وہاں چھ ماہ کی رات بھوتوں سے ڈرنے کے لئے کافی ہوتی ہے یہاں کوئی کسی کو یہ نہیں کہتا کہ کل سویرے آنا تمہارا کام ہو جائے گا یا کل آکے اپنا ادھار واپس لے لینا۔ اچھا ہے وہاں کرکٹ کے ون ڈے میچ نہیں ہوتے۔ اگر ہمارے شعراء وہاں پہنچ جائیں تو وہ یہاں کی لمبی اور جدائی کی رات کے نئے تجربے سے گزریں تو ان کی "غزل" جلد ٹھکانے لگ جائے مگر ان کو اختر شماری کے لئے کافی وقت مل جائے گا۔ یہاں جگراتے کے مریض کو ایک لحاظ سے کافی فائدہ رہتا ہے جب ڈاکٹر ایک گولی صبح اور ایک شام کا کہتا ہے تو مریض کی کافی بچت ہو جاتی ہے اور اگلی خوراک تک وہ صحت کے زینے پار کر چکا ہوتا ہے۔
بعض اوقات وہاں صرف ایک منٹ کا بھی دن ہوتا ہے اس لئے شام کی دوا اکٹھے ایک ساتھ لے لی جاتی ہوگی۔ سورج جنوب کی جانب تھوڑا سا بلند ہو کر اسی لمحے غروب ہو جاتا ہے اس لیے وہاں کے گورے عقل مند ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ہوتے یہ ان لوگوں ہی کی کہاوت ہے کہ
Every dog has his day and every man has his hour
لہٰذا وہ سیکنڈنیوین کو "سیکں ڈے نیوین" کہنے میں بھی بحق بجانب ہیں کہ کل کبھی نہیں آتی یعنی چھ ماہ کی کل کو آج کوئی برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ شب و روز ملا کر ہی ایک دن بنتا ہے ان ممالک کو یہ بھی فائدہ ہے کہ وہاں دن دُگنا رات چگنی ترقی ہو رہی ہے۔
ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہاں مرغیاں اپنے انڈے کس معیاری وقت کے مطابق دیتی ہوں گی اگر وہ بھی ان ممالک کے چھ چھ ماہ کے دن رات کے چکر میں پڑ جائیں تو انہیں شتر مرغ سے بھی بڑا انڈا دینا پڑے یعنی
One bears the pains another has the gains
کیونکہ تکلیف کوئی جھیلے اور مزا کوئی اور لے
ہفتے مہینے اک سال برابر۔۔ گھر کی مرغی دال برابر۔۔
ابھی تو گورے شکر کریں کہ وہاں کئی دنوں کاایک دن ہے اگر وہاں بارہ گھنٹے کا دن شمار ہوتا تو اس لحاظ سے وہاں سال کا دن اور سال ہی کی رات شمار ہوتی اور اسی طرح اگر وہاں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات کو ایک رات اور ایک دن ہی شمار کیا جائے تو اس لحاظ سے وہاں انسانی زندگی دو ڈھائی ماہ کی ہی شمار کی جا سکے گی پھر وہاں سے یہ حیران کن خبریں بھی آئیں گی کہ۔۔ چار ماہ کے ادھیڑ عمر لڑکے کی دوماہ کی معصوم لڑکی سے ظالمانہ شادی، گندم کی فصل ایک دن میں تیار، چار ماہ کا بوڑھا اپنی شریک حیات کی تلاش میں سرگرداں، تمام دوائیوں پر ایک ہفتے کی expiry تاریخ (میرے اس مضمون کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا ہے کہیں یہ نہ ہو کہ آپ سہاگ رات گزارنے ناروے چلے جائیں اور اگلے روز آپ کی بیوی نے وہاں پر آپ کو کام کرنے بھیج دیا تو پھر کب آؤ گے تم آؤ گے کا راگ الاپا جائے)۔
ایک بات واضع ہے کہ وقت گھنٹے منٹ سیکنڈ بہت اہم ہوتے ہیں اس کا احساس اسی کو ہوتا ہے جو کہ ان میں پھنسا ہو۔ ڈاکٹر نے مریض سے کہا کہ تمہارے لیے ایک اچھی اور ایک بری خبر ہے مریض پہلے مجھے اچھی خبر سے مستفید فرمائیے ڈاکٹر، اچھی خبر یہ ہے تم صرف چوبیس گھنٹے زندہ رہو گے، مریض یہ اچھی خبر ہے تو بری خبر کون سی ہے؟ ڈاکٹر معاف کرنا یہ خبر تمہیں کل سنانا بھول گیا تھا۔۔ خبر بھی کیا چیز ہے یہ کسی کے لیے اچھی ہوتی ہے اور کسی کے لیے بری حالانکہ خبر ایک ہی ہوتی ہے میرے خیال میں وقت ایک مجسم شکل میں موجود ہوتا ہے اسی لیے یہ دیا اور لیا جاتا ہے۔
بڑے لوگ وقت کو قرض کے طور پر بمعہ سود ادا کرتے ہیں کیونکہ یہ کئی لوگوں کی ضرورت ہے اسی لیے وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنانے کی کہاوت بھی مشہور ہے۔ لیکن یہ نصیب کی بات ہے کہ کسی کو وقت ملے یا گدھا کیونکہ وقت پر ایک ٹانکہ سو ٹانکوں سے نجات دیتا ہے اور وقتی دوستی سے بچنا بھی ضروری ہے وقت آکسیجن کی طرح کبھی ضائع نہیں ہوتا لہٰذا کبھی فکرنہ کیجیے کہ فلاں نے ہمارا اتنا قیمتی وقت ضائع کیا بلکہ ایک ایسا ادارہ بھی ہونا چاہیے جو کہ برا وقت تلف کرے اور اچھے کو ضائع ہونے سے بچائے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک کا وقت سب سے معیاری ہے آپ اس وقت کو جیسے مرضی استعمال کریں یہ کبھی گھستا اور نہ ہی اس کی مقدار کم ہوتی ہے یعنی چوبیس گھنٹے اور ایک ہزار چار سو چالیس منٹ کا پاور فل دن اور ایک منٹ بھی چھ چھ فٹ قد کاٹھ کا لیکن یہ ظالم پھر بھی بڑا جلدی جلدی پاس ہورہا ہے اور ضرورت ہے کہ اس کی ٹانگ کے ساتھ کسی ہاتھی کو باندھ دیا جائے۔
میں اپنی قوم سمیت اس قیمتی وقت کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرکے ضائع کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن وہی گھنٹے و ہی منٹ۔۔ آج تک کسی دشمن نے بھی ہمارے معیاری وقت کے (اسٹینڈرڈ) میں فرق کی نشان دہی نہیں کی۔ اس لیے ہمیں اس کے ضائع ہونے کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی پرواہ۔۔ ہمارے وقت کا اعلٰی معیار۔۔ ہمارے وقت کے لمبے لمبے پَر، ہمارا وقت تسلی دینے والا، ہمارا وقت بہترین مرہم، ہمارا معیاری وقت/ ہر گھاؤ بھرنے والا، ہمارا وقت ہمارا رہنما، ہمارے وقت کی کمال تیز رفتاری۔۔ آگے آگے بڑھنے والا اورنہ رکنے والا۔۔ وقت پڑنے پر ہمارا وقت سب سے طاقتور ثابت ہونے والا، کیونکہ برطانیہ کا وقت "دوڑ" میں ہم سے پانچ گھنٹے پیچھے۔
ہماری ریل گاڑیاں کئی گھنٹے لیٹ ہو جاتی ہیں کیا اس وجہ سے کہ ریلوے کے خسارے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، بالکل نہیں ابھی تو حال ہی میں ریلوے نے منافع کمایا۔۔ ہمارے پاکستان کا وقت یقیناََ بہت معیاری ہے ہمارے وقت کی عمر لمبی ہے ہمارے لئے اسے دنیا کے دوسرے ممالک میں گزارنا مشکل ہے جو لوگ دوسرے ممالک میں بیٹھے ہیں ان سے پوچھیں تو ان کا وقت وہاں کیسے گزر تا ہے۔۔
وقت اور سستی کے متعلق جرمن شاعر فریڈ کی ایک نظم کا اُردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
میری دادی کو مجھ سے شکایت تھی
کہ میں بہت سست ہوں
وہ کہا کرتی تھی۔
تمہیں بھیجنا چاہیے
موت کو لانے کی خاطر
اگر انسان
لمبی عمر کی خواہش رکھتا ہو۔