جدید پُر اثر محاورے
دماغ چلنا:
وقار مجروح کے بقول بزنس مینوں کا کاروبار چلے نہ چلے پر دماغ بڑا چلتا ہے اور ان کے پاس اپنا مال بیچنے کی بڑی بڑی ترکیبیں ہوتی ہیں اور وہ اپنے ٹیکس کا ٹریک بچاتے ہوئے قومی اکنامکس کی ٹرین الٹانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ وہ مال بیچنے کے لئے ایسی حرکات کرتے ہیں کہ گاہک یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس بندے کا کاروبار اور دماغ دونوں چل گئے ہیں کیونکہ وہ اپنی باتیں بار بار دہرا رہا ہوتا ہے۔ دماغ چلنے کا سبب سر پر چوٹ وغیرہ کا لگنا ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی دفعہ اگلے کو لگائی گئی چوٹ کا اثر اپنے دل پر آ جاتا ہے اور کئی دفعہ دوسروں سے جھوٹ بول کر بھی ؎
ساری دنیا ہی یوں تو بولے جھوٹ
پر نہیں بولتے ہیں گونگے جھوٹ
ایک بوڑھا شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک دوکان پر گیا اور اسے کہنے لگا مجھے ایک جیکٹ چاہئے۔ سیلز مین پوچھنے لگا اپنے لئے یا بیوی کے لئے؟ وہ شخص اس کے کان میں کہنے لگا "گرل فرینڈ کے لئے" سیلز مین کہنے لگا میرا مشورہ ہے کہ آپ اس کے لئے تو اِن میں سے پسند فرمائیں اور آپ اپنے لئے یہ بلٹ پروف جیکٹ بھی خرید لیں آپ کی بیوی نے آپ کی بات سن لی ہے۔ ویسے سیل مین کئی دفعہ اچھا مشورہ بھی دے دیتا ہے اور اس کی عاجزی وقار مجروح جیسے شوم کو بھی خریداری کے لئے مجبور کر دیتی ہے جب وہ یوں گویا ہوتا ہے ؎
میرے لائق کوئی حکم ہو تو بتائیں
خدمت میں گر کوئی سقم ہو تو بتائیں
بہرحال مال بیچنے کی تکنیک ہوتی ہیں اور نتیجتاً گاہک ہاتھوں ہاتھ سودا لے لیتا ہے۔۔
ہاتھوں ہاتھ لینا:
اب یہ محاورا ذرا پرانا ہوگیا ہے کیونکہ اب آن لائن خریداری کا زمانہ ہے اور زیادہ تر لوگ اپنی خریداری آن لائن اور وہ بھی موبائل کے ہاتھوں کرتے ہیں۔ کوئی اچھی موبائل کمپنی اگر کوئی آفر لگا دے تو موبائل بھی ہاتھوں ہاتھ بکنے لگتا ہے بعض اوقات خریدار دوکانوں پر مال ہاتھوں ہاتھ لیتے ہوئے ہاتھا پائی بھی مول لے لیتے ہیں جسے انتظامیہ آڑھے ہاتھوں لیتی ہے اور ہاتھ کے ہاتھ جرمانہ بھی کر دیتی ہے ؎
تالاب میں رہ کر مگر مچھ سے بیر
بندر کیا جانے سمندر میں سیر
پھر ہوتا وہی ہے جو یہاں کے رسم و رواج ہیں یا دریں اثناء کوئی جوگاڑ لگانے کا سوچا جاتا ہے۔۔
جوگاڑ لگانا:
فرانسیسی صدر کو جوگاڑ لگانا پسند ہے اور ان کے بقول پاکستانی جوگاڑ لگانے اور شارٹ کٹ لگانے میں ماہر ہیں لیکن جوگاڑ ایک عارضی عمل ہے اس کا وقتی طور پر فائدہ ضرور ہوتا مگر نقصان اندیشہ بھی رہتا ہے۔ مثلاََ کسان جوگاڑ لگا کر بھلے پانی چوری کر لیتا ہے لیکن اگر مخالف کو پتا چل جائے تو وہ اپنی جوگاڑ لگا کر اپنے اس حریف کا پِتہ پانی کر دیتا ہے۔ پتا نہیں فرانسیسی صدر کو جوگاڑ لگانے کی ابتدائی تعلیم کس پاکستانی نے دی ہے اور ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ اب اس نے اپنی پرفیوم کی صنعت کو جوگاڑ لگانے کاکون سا مشورہ دیا ہے کہ اب انہوں نے اپنے اعلی معیار کے پرفیوم چائنہ سے بنوانے شروع کر دیئے ہیں۔
اس طرح تو برازیل کو کافی بھی چائنا سے بنوانا چاہئے کیونکہ چائنہ نقل میں سب سے آگے ہے وہ ہر ملک کو اس کے اخبارات تک چھاپ کر مہیا کرنے کی جوگاڑ بھی لگا سکتا ہے۔ چائنہ نے یورپ کی مارکیٹ کو بری طرح خراب کیا ہوا ہے۔ میرے خیال میں امریکہ کو اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کے لئے جہاں بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے وہاں اب اسے اپنے مہنگے داموں بننے والے جاسوسی جہاز اور سب میرین بھی چائنہ ہی سے بنوانے چاہئے بلکہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی انڈسٹری بھی چین منتقل کر دینا چاہئے اور اپنی معاشی حالات کو چینی جوگاڑ سے بہتر کرنا چاہئے۔ شاید چین امریکہ کی یہ درخواست مان کر یہ کہے ؎
میں نے جیسے ہی اس سے درخواست کی
اس نے جھٹ ہی سے محفل برخواست کی
امریکہ کو جلد ہی اپنے معاشی فائدے کے لئے رِسکی اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ اس کی معیشت کے پاؤں تلے سے زمین نکل سکتی ہے۔
پاؤں تلے سے زمین نکلنا:
اگر کسی شاعر کو پتا چل جائے کہ کسی دوسرے لکھاری نے اس کی پردادا غزل کی زمین میں اپنے اشعار"کاشت" کر لئے ہیں تو وہ غصے میں پہلے تو اپنی پشاوری چپل ڈھونڈنے لگتا ہے اور پھر اپنی غزل کے رقبے سے نکل کر اس شاعر پر زمین تنگ کرتا ہے اور پھر اپنے "رائج" با وزن کلام کا اثر اس مبینہ "چور" پر ڈالتا ہے اور نظم و ضبط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے للکار کر کہتا ہے کہ تو نے میری تین "قطعہ" زمین پر قبضہ کرنے کی ناجائز کوشش کیوں کی؟
پہلے تو اس کے پاؤں تلے سے ایک"مطلع" مزید زمین بھی نکل کھڑی ہوتی ہے اور اول وہ زمین دوز ہوکر اس سے اپنا زمینی رشتہ ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی دوران اس کی کوہاٹی چپل کا تو حدود دربہ ہی مت پوچھیں کہ موصوف کہاں چھوڑ کے بھاگے ہیں اور اپنی عاجزانہ باتوں میں طعنے لپیٹ کر یوں اس کے منہ پر مارتا ہے ؎
چھپ کے وار کرنے کے سب سے اچھے ماہر آ
آستیں سے اب نکل کے ذرا۔۔ تو باہر آ
چنانچہ شعر کی زمین چرانے والا شاعر جو کہ پہلے ہی بڑا اثر رسوخ رکھتا ہے وہ آگے سے یہ جواب دیتا ہے ؎
ایسے کرتے ہیں وہ مجھ پر ایک جوابی وار
جیسے ہوتا ہے غریبوں پر۔۔ نوابی وار
جوابی وار پر شاعر اپنے جوتے بغل میں دباتے ہوئے راہ فراہ اختیار کرتا ہے۔۔
جوتے اٹھانا:
اس سے مراد بروزِ جمعہ مسجد سے جوتے اٹھانا نہیں ہے۔ ماں باپ کے سمجھانے کے باوجود کئی بچے ان کی ہر نصیحت کو جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں اور پھر عمر کا ایک حصہ جوتے چٹخاتے ہوئے گزار دیتے ہیں اور بلآخر اپنا ہر شوق مسجد سے جوتا اٹھا کر پورا کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں لیکن کچھ اسی کماش کے لوگ دفاتر میں بھی ملتے ہیں وہ چند دن کے بعد دفتر آتے ہیں اور باس کے دفتر میں جوتے اتار کر داخل ہوتے ہیں پھر اپنے باس کے جوتے اٹھاتے ہیں انہیں سیدھا کرتے ہیں باس بھی انہیں اپنے جوتے سونپ دیتا ہے یہ چاپلوس انہیں اپنے سر پر بھی رکھ لیتے ہیں۔
دفتر میں ایسے ویسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جن کا جوتے اٹھانے کا انداز بڑا "جوتیلا" ہوتا ہے۔ پھر جب کوئی نیا افسر تبدیل ہو کر آتا ہے وہ اس نامراد کو جوتے کی نوک سمجھتا ہے اس پر طنز کے جوتے برساتا ہے اور بالآخر وہ اس کے جوتے پر جوتا رکھ کر اگلے مورچوں پر روانہ کر دیتا ہے یوں وہ دوبارہ ایک ہی طرح کی مراد پا جاتا ہے۔ ایک سرکاری افسر نے چارج لے کر اپنے دفتر کے لوگوں سے میٹنگ کرتے ہوئے سختی سے کہا کہ مجھے چاپلوسوں اور جوتے اٹھانے والے اہلکاروں سے سخت نفرت ہے اس دوران وہی جوتے اتار کر داخل دفتر ہونے ولا شخص گویا ہوا۔ میں نے اپنی سروس میں پہلا افسر دیکھا ہے جو چاپلوسی کو برا سمجھتا ہے۔۔ واہ کیا بات۔۔ تالیاں۔۔
اس کے اس جملے نے افسر کا دل ایسا پھیرا کہ اس نے اپنے جوتے اُسی کی طرف پھیر دیے۔۔