پاکستان میں کورونا وائرس بھی تجارت !
" بد نیت لوگ"ایک گالی تو نہیں، مگر دو لفظی "بُرا جملہ" ضرور ہے۔ ہم پاکستانیوں کی اکثریت بظاہر خود کو نیک ظاہر کرتی ہے، مگر نیت ٹھیک نہیں ہوتی، تہذیب یافتہ معاشرے کے لوگ ہماری نظر میں بظاہر نیک لوگ نہیں ہوتے مگر اُن کی نیت ٹھیک ہوتی ہے۔
گزشتہ روز میں نے میڈیکل اسٹور سے ایک دو ادویات خریدیں اور حفظ ماتقدم یا چیک کرنے کے لیے دو عدد ماسک بھی مانگ لیے۔ ادویات کے حوالے سے ہم پاکستانی لوگ بل وغیرہ دیکھنے کے چکر میں نہیں جاتے لیکن میں پرتجسس تھا کہ بل دیکھا جائے کہ ماسک کتنے روپے میں ملا ہے۔ تو لیجیے جناب ہماری کارستانیاں چیک کریں کہ 5روپے والا ماسک 30روپے میں ملا، اب میں چونکہ ابھی ابھی تہذیب یافتہ معاشرے سے لوٹا ہوں، اس لیے بحث و مباحثے سے گریز کیا اور گھر لوٹ آیا۔
گھر آتے آتے ان سوچوں میں گم ہوگیا کہ ہم رشتہ داروں، بہن بھائیوں، دوستوں الغرض کسی بھی پاکستانی کے گھر میں چلے جائیں، چھوٹا ہے یا بڑا، غریب کا ہے یا امیر کا، کوٹھی ہے یا دو کمروں کا مکان، ہر طرف اسلامی جذبہ کارفرما ملے گا۔ کورونا وائرس اچانک دریافت نہیں کیا گیا، اس بارے میں جنوری سے خبریں آرہی تھیں، مگر حکومت نے اس بارے میں کوئی واضح پالیسی ترتیب نہیں دی۔ کیا یہاں کسی کو علم نہیں ہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کو افراد کے لاک ڈاؤن کے لیے نہیں، بلکہ ممالک کے لاک ڈاؤن کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
خیر کورونا وائرس کے حوالے سے پہلی خبر آتے ہی ہر شخص کو یقین ہو گیا کہ ماسک کی قیمتیں چڑھ جائیں گی۔ کاروباری طبقے کا یہ رویہ اس قدر آزمودہ اور پختہ ہو چکا ہے کہ معاملہ شرم و حیا سے آگے بڑھ گیا ہے۔ بقول شاعر
بڑھ جائیں گے کچھ اور لہو بیچنے والے
ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور
مسئلہ مہنگائی کا نہیں ہے، یہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے، مگر مسئلہ اس وقتMiss Managmentکا ہے۔ کیا صرف کاروباری برادری سیاہ دل ہے؟ یہ کون ہیں؟ آسمان سے ٹپکے ہیں نہ زمین سے راتوں رات اُگے ہیں۔ ہمارے ہی بہن بھائی، والد، چچا، ماموں، بیٹے بھتیجے ہیں۔ ایک گھر میں ایک بھائی تاجر ہے، دوسرا عالم دین ہے، تیسرا پولیس میں ہے۔ ایک ہی والد کے بیٹے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ صرف ایک طبقے کو مطعون کرنا ِ انصاف نہیں ہے، خود غرضی کی چادر چاروں طرف تنی ہے۔ یہاں دودھ جعلی ہے، یہاں دودھ کی شکل میں کیمیکل سیل کیا جا تاہے، یہاں مرچوں کی جگہ سرخ اینٹیں پیس کر ڈالی جاتی ہیں، دل میں ڈالے جانے والے اسٹنٹ جعلی ہیں۔ جو صحت مند ہیں، انھیں بھی ڈالے جا رہے ہیں۔
سرکاری اسپتال قتل گاہوں سے کم نہیں۔ نجی شعبے کے اسپتال لوٹ مار کے مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ایک بڑے شہر کا معروف اسپتال ایسا بھی ہے جس کی تعمیر کے لیے تارکین وطن سے عطیات لیے جاتے رہے اور کوئی مریض لاکھوں روپے جمع کرانے سے پہلے بستر نہیں پا سکتا۔
ادویات جعلی ہیں یا غیر معیاری! نئے نئے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کا خوب استحصال کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ ان کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ انصاف، قانون، رحم اور خدا ترسی کے بجائے کامیابی صرف سفاکی میں ہے اور دولت کے انبار اکٹھے کرنے میں!کورونا وائرس ایک وبا ہے۔ وبائیں آتی ہیں گزر جاتی ہیں۔ دنیا میں طاعون آیا 4کروڑ لوگ مارے گئے، ملیریاآیا 3کروڑ لوگ مر گئے، ہیضہ آیا 2کروڑ لوگ لقمہ اجل بنے، ٹی بی، چیچک سے کروڑوں ہلاک ہوئے۔ طاعون اور چیچک کو مار مٹایا گیا۔ کورونا وائرس کا تریاق بھی، آج نہیں تو کل دریافت کر لیا جائے گا۔ مگر اس کورونا وائرس کا کیا ہوگا جس میں ہم مبتلا ہیں۔
وہ ہے بے حسی!آپ یقین مانیں امریکا میں Prayer Placesبنی ہیں جہاں ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان اپنی اپنی عبادات میں مشغول نظر آتے ہیں۔ کسی کو کسی پر اعتراض نہیں ہوتا، لیکن یہاں آتا ہوں تو یہاں ہر چیز مختلف ہے۔ خیر یہ کورونا وائرس منافقت کا ہے جو ہمیں اندر سے مار رہا ہے۔ ایک گھر ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔ ہم کوئی گھر نہیں چھوڑتے۔ مگر ہم دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے باؤلے ہو جاتے ہیں۔ ہم پر پاگل پن سوار ہو جاتا ہے۔ انصاف یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے شکم میں سات ٹیکے لگنے چاہئیں مگر ظلم یہ ہے کہ یہ سلوک ہم صرف سگ گزیدہ سے کرتے ہیں!کوئی ہے جو اس وائرس کا علاج کرے؟