عمران خان کا دورہ امریکا اور ہماری قومی غیرت !
"The Real Visit of America" یہ ہیڈلائن امریکاکے مشہور اخبار بوسٹن گلوب کی ہے جس نے عمران خان کے دورہ امریکا کو واقعی اہم دورہ قرار دیا، یہی حال مغربی ممالک کے دیگر میڈیاکا بھی تھا مگر پاکستانی میڈیا نے شاید اسے کسی اور نظر سے دیکھا ہے جس کا ذکر بعدمیں کرتاہوں لیکن پہلے دورہ کی کامیابی کے حوالے سے کچھ "دلائل"پر بات ہوجائے۔
کیسا کمال کا دورہ تھا، ساری دنیا کی توجہ حاصل کر گیا، پاکستانی اعلیٰ قیادت کو اس قدر عزت و شہرت شاید ہی ملی ہو۔ امریکا پہنچ کر شاید ہی ہمارے کسی لیڈر نے کشمیر ایشو پر بات کی ہو، شاید ہی کسی لیڈر کے لیے اتنا کراؤڈ جمع ہوا ہو، شاید ہی کسی لیڈر کو امریکی سینیٹ میں اس قدر عزت ملی ہو، شاید ہی کسی نے امریکی صدر سے یہ کہنے کی جرأت کی ہو کہ افغانستان میں آج تک کوئی جنگ نہیں جیت سکا، شاید ہی کسی نے امریکا کو یاد کرایا ہو کہ سر! ہم نے 20سال آپ ہی کی جنگ لڑی ہے، بدلے میں ہم نے 70ہزار پاکستانی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اور کھربوں ڈالر گنوائے ہیں۔
شاید ہی کسی نے براہ راست ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے بات کی ہو، شاید ہی کسی نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے پراعتماد ہو کر اور سینہ ٹھوک کر کہا ہو کہ اگر امریکا کو پاکستان کے ہتھیار نہیں ملے تو یقینا دنیا کی کوئی طاقت بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتی کہ ہتھیار کہاں ہیں، شاید ہی کسی امریکی صدر نے اپنے میڈیا کے سامنے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا ہو۔ ماضی کے جھروکے میں تو ہمیں ایسے ایسے ’دانشور، قسم کے وزیر اعظم سے پالا پڑتا رہا جنھیں صدر بارک اوباما سے اوول آفس میں ملاقات کا موقع میسر آیا تو اُن کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے۔ کاغذ ہاتھ میں اوراُن کاغذوں کو آگے پیچھے کررہے تھے۔ رسمی سی ملاقات تھی اورچند جملے ہی انھوں نے ادا کرنے تھے، لیکن کاغذوں کی مدد کے بغیر وہ مشق اُن سے ہونہیں رہی تھی۔
گزشتہ 40سال سے میری قومی سیاست پر بھرپور نظر رہی ہے۔ آپ یقین مانیں ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے کبھی ایک خوددار قوم کے سربراہ ِ مملکت کی حیثیت سے امریکی کے ساتھ دو طرفہ تعلقات رکھنے کا زور نہیں دیا۔ ہمارے حکمرانوں کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ پاکستانی قوم کو بیچ کر اپنے اقتدار اور مفادات کو ترجیح دی جائے۔ اب تو خود امریکی حکمرانوں کی ایسی کتابیں شایع ہو چکی ہیں، جس میں بغیر کسی لگی لپٹی یہ تحریر ہے کہ کس طرح پاکستانی حکمران واشنگٹن آکر اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے درخواست گزار ہوتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران تو معذرت کے ساتھ پاکستان کا کردار امریکا کے ساتھ ایک طفیلی جیسا ہوتا تھا۔ اور پھر پاکستان کا شمال مغربی صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور کے قریب بڈابیر کے مقام پر جو امریکی اڈاموجود تھا، اُ س میں تو ایک ممتاز بیوروکریٹ روئیداد خان کے کہنے کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو داخلے تک کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ یہ وہی مشہور زمانہ بڈابیر ہے جہاں سے اڑنے والے جاسوسی جہاز یو ٹو کو سوویت یونین نے مار گرایا تھا۔ اور جس کے بعد روسی صدر خروشیف نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ وہ اس کا بدلہ پاکستان سے لیں گے!
ان سب کے برعکس آج دنیا مان رہی ہے کہ حالیہ دورے عمران خان اور فوجی قیادت نے ایک جھٹکے میں سب کچھ بدل دیا ہے، جب اوول آفس میں کپتان امریکی صدر کے ساتھ پر اعتماد انداز میں گفتگو کرتے ہوئے نظر آیا اور جس طرح امریکی صدر نے وزیر اعظم عمران خان کا استقبال کیا، جتنی طویل پریس کانفرنس اور جتنے کھل کر میڈیا کے سوالوں کے جواب دیے اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ پاکستانیوں کے لیے سب سے پر مسرت لمحہ یقیناََ وہی تھا جب امریکی صدر سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سوال کیا گیا، جس پر کپتان نے بہترین طریقے سے اپنا موقف پیش کیا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ ساری باتیں وہ ہیں جو دنیا میں ہر جگہ ڈسکس ہو رہی ہیں لیکن پاکستانی اپوزیشن جماعتیں اور اُن کی میڈیا ٹیمیں اس دورے کی اہمیت سے ابھی تک نہ صرف انکاری ہیں بلکہ دورے میں اُن غلطیوں کو اُجاگر کیا جا رہا ہے جس کا دور دور تک بھی تعلق نہیں ہے۔ اسی حوالے سے صبح سویرے مجھے نیویارک میں مقیم دوست آغا محمد صالح جو نیویارک میں بنیادی جمہوری ڈھانچے نیویارک سٹی کوئینز کے کمیونٹی بورڈ میں پہلے اور واحد پاکستانی رکن ہیں اور گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے نیویارک میں مقیم ہیںکی کال آگئی۔
انھوں نے کہا کہ یقین کریںامریکا میں عمران خان چھاگیا ہے، جب کہ پاکستان میں اُس کے دورے میں کیڑے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر اس حوالے سے کسی کو کوئی شک ہو کہ بیرون ملک پاکستانی اس دورے کو کیسا دیکھ رہے ہیں تو وہ امریکا و یورپ میں رہنے والے اپنے کسی دوست، رشتے دار وغیر ہ سے پوچھ سکتا ہے۔ خیر میں اُن کی گفتگو سن کر اپنے تئیں شرمندہ ہوا اور سوچا کہ اگر ہم اس لیڈر کو بھی سپورٹ کرنے میں ناکام رہے تو ہم پر کون حکمرانی کرے گا؟ کون پاکستان کو بچا پائے گا۔
میں پاکستان میں مہنگائی اور بیڈ گورننس کا دفاع تو نہیں کر سکتا اور نہ ہی میں نے کبھی اپنے کالموں میں دفاع کیا ہے۔ لیکن آپ یقین مانیں کہ جب بھارت کا وزیر اعظم کسی ملک کا دورہ کرتا ہے تو بھارت کی جانب سے دنیا کو کوئی ایسا پیغام نہیں جاتا کہ جس سے برا تاثر جائے۔ لیکن یہاں کہا جاتا ہے یہ دورہ امریکا کے کہنے پر ہوا ہے یا سعودی عرب کے کہنے پر یا کسی ساجھے ماجے کے کہنے پر۔ کیا یہ باتیں ہمیں زیب دیتی ہیں؟
انڈین میڈیا سے یاد آیا کہ وہاں کشمیر کے حوالے سے خوب ڈسکشن ہو رہی ہے حالانکہ میں ذاتی طورپہ سمجھ رہا تھا کہ اس دورے میں کشمیر کا ذکر کرنا فضول بات ہوگی۔ لیکن ہم جیسوں کو عمران خان نے غلط ثابت کردیا۔ کھل کے کشمیر کی بات کی اور ڈونلڈٹرمپ کو مخاطب ہوکے کہا کہ آپ کا ملک دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے۔ آپ اس مسئلے کے حوالے سے پیش رفت کرسکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مجھے ثالثی کے لیے کہا جائے تو ضرور کروں گا۔ یاد نہیں پڑتا کہ ماضی میں کسی امریکی صدر نے ایسا کہا ہو۔ بجاطورپر ان الفاظ کو ہندوستان میں اچھا نہیں لیا جارہا اور وہاں سے تو باقاعدہ بیان جاری ہواہے کہ ہم نے امریکا سے ثالثی وغیرہ کی کوئی بات نہیں کی۔
بہرکیف حاسدوں اورنقادوں کی زبانیں تو بند نہیں ہوسکتیں، لیکن جوکوئی بالکل مخالفت میں غرق نہیں اُسے ماننا پڑے گا کہ عمران خان میں وہ چیز تو ہے، جسے انگریزی میں ( dignity)کہتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی کہنا پڑا کہ پاکستانی وزیراعظم بڑے اتھلیٹ رہے ہیں اوراپنے ملک میں ہر دلعزیز ہیں۔ ظاہر ہے کہ نون لیگ اورپی پی پی کی صفوں میں ہر دلعزیز نہیں ہوں گے، لیکن ہیں تو منتخب وزیراعظم اوران کے پیچھے اپنا وسیع حلقہ اثر بھی ہے۔ یہ جو پاکستانیوں سے بھرا اسٹیڈیم والا جلسہ تھا یہ اور کتنے پاکستانی لیڈر وں کو نصیب ہوا۔
بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی جب اپنے پہلے دورہ امریکا پہ گئے تو انھوں نے ایسے جلسے سے خطاب کیا اورپھر اب عمران خان نے ایسا ہی کیاہے۔ اگر جلسے میں عمران خان نے کرپشن اورپاکستان کے سابقہ لیڈروں کو آڑے ہاتھوں لیا تو اسے کوئی اتنا بڑا عیب نہیں سمجھنا چاہیے اورقومی غیرت کاتقاضا بھی یہی ہے کہ ہمیں یکجان ہوکر ملک و قوم کے بارے میں سوچنا چاہیے!