کورونا میں غریبوں کی عید!
عید الفطر کی آمد ایک دو روز میں ہے، صدیوں بعد ایسی عید دیکھنے کو ملے گی جب مذہبی اجتماعات یا تو ہوں گے نہیں، اگر ہوں گے بھی تو ایک دوسرے سے گلے مل کر عید مبارک کہنے کی روایت کو صدیوں بعد پہلی مرتبہ ترک کرنا پڑے گا۔ کیوں علاج سے بہتر احتیاط ہے۔ اور اب احتیاط اس لیے بھی ضروری ہوچکی ہے کیوں کہ لاک ڈاؤن تقریباًکھل چکا ہے۔
اگر گزشتہ 20دن سے کورونا کے باعث روزانہ کی بنیاد پر 30سے 40ہلاکتیں ہو رہی تھیں تو یہی تناسب آج لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد بھی ہے، اگر پہلے گزشتہ 20دن سے مریضوں کی تعداد میں پندرہ سو کا اضافہ ہو رہا تھا تو آج بھی اوسطاََ یہ تعداد17، 18سو افراد روزانہ ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں کے ساتھ ایک چیز جو عوام کے اندر سے کورونا کا ڈر ختم کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ زیر گردش افواہوں کے مطابق اسپتال والے کسی بھی دل گردے کے مریض کو کورونا کے کھاتے میں ڈال کر "گنتی" پوری کر رہے ہیں، یہ باتیں میں کم و بیش درجن بھر افراد سے سن چکا ہوں۔
ابھی کالم لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ ایک دوست کا فون آگیا کہ علی بھائی فلاں اسپتال میں کوئی "بندہ" ہے جاننے والا! میں نے پوچھا خیریت ہے؟ دوست نے بتایا کہ اُن کے رشتے داروں میں ایک خاتون زچگی کے دوران فوت ہوگئی ہے، اب اسپتال والے میت دینے سے انکاری ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ 5افراد کے نام دیں جو تدفین کے وقت موقع پر موجود ہوں گے کیوں کہ آپ کا مریض کورونا وائرس کا شکار تھااس لیے ہم آپ کو میت نہیں دے سکتے۔ خیر واللہ علم حقیقت کیا ہے؟ کیا نہیں؟ جلد ہی سب کو علم ہو جائے گا!
خیر کورونا کے حقیقی ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں مگر بقول سپریم کورٹ کے کہ اس بیماری نے وباء کی شکل اختیار نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے شاید ایسا اس لیے کہا کیوں کہ حکومت کورونا از خود نوٹس کیس میں صحیح انداز میں اپنا موقف پیش نہیں کر سکی۔
جہاں حکومتی وزراء کو خود پیش ہو کر حکومت کی کارکردگی پیش کرنا تھی وہیں، اٹارنی جنرل، ڈپٹی اٹارنی جنرل اور نمائندگان سے کام چلاتی رہی۔ تبھی گزشتہ روز NDMAکی رپورٹ میں چیف جسٹس نے کہا کہ"500 ارب روپے کورونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہرمریض کروڑ پتی ہوجائے گا، یہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ اتنی رقم لگانے کے بعد بھی اگر 600 لوگ جاں بحق ہوگئے تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ؟ کیا 25 ارب کی رقم سے آپ کثیر المنزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں؟ "حالانکہ اس کا علاج ہی ابھی تک دریافت نہیں ہوا تو مریض کی حفاظت پر ہی اتنے پیسے خرچ ہوگئے تو انتظامات پر سوالیہ نشان تو لگتے ہی ہیں!
جس طرح میں نے گزشتہ کالم میں کہا تھا کہ 12ہزار روپے اگر کسی کو ملے بھی ہیں تو اس مہنگائی کے دور میں وہ چند دن میں ہی ختم ہو جائیں گے، وزیر اعظم عمران خان واحد شخصیت تھے جو لاک ڈاؤن میں نرمی کے حق میں تھے۔ اب جب کہ لاک ڈاؤن میں نرمی ہو چکی ہے۔ تو کورونا کو بھلاتے ہوئے ہم عید کی تیاری میں مصروف ہوگئے ہیں !
اس بار عید گزشتہ عیدوں کی نسبت انتہائی مشکل ہے۔ عید پر صاحب حیثیت لوگوں کو پہلے سے کچھ زیادہ غربا اور مساکین کی امداد کرنا ہوگی کیونکہ اس بار خوفناک مہنگائی کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھی لوگوں کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ کورونا اور لاک ڈاؤن میں درمیانے طبقے کی خوشیاں بھی بہہ گئی ہیں اور اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان کے لیے عید کی خریداری بھی نہایت مشکل ہو گئی۔ ان حالات میں درمیانے طبقے سے یہ امید وابستہ کرنا کہ وہ غربا کی عید کے حوالے سے مالی امداد کریں، ایک نامناسب بات ہے۔
ان کے تو اپنے حالات اتنے ناگفتہ بہ ہیں کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بھی عید کی خوشیاں پہلے کی طرح منانے کے قابل ہیں یا نہیں۔ اس لیے اب صرف دولت مند طبقہ ہی رہ جاتا ہے جس سے یہ توقع لگائی جا سکتی ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ ایثار کا مظاہرہ کریں۔
بہرکیف اگرچہ حکومت اور کچھ رفاہی تنظیمیں اربوں خرچ کر رہی ہیں، مگر اب بھی کروڑوں ایسے خاندان ہیں کہ جن کے پاس سامانِ عید نہیں۔ بطور خاص ان بچوں کی محرومی اور آزردگی کا اندازہ لگائیے کہ جن کے پاس عید کے لیے نئے کپڑے ہیں نہ نئے جوتے۔ کیوں کہ پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کے سوا کچھ بچا ہی نہیں، ہزاروں، لاکھوں گھر ایسے ہیں جنھیں عورتیں اور بیٹیاں مزدوری کرکے چلا رہی ہیں، ہزاروں لاکھوں بیٹے اعلی تعلیم پانے کے باوجود بیکار بیٹھے ہیں، گھروں میں بیمار ماں باپ اور بیماربچوں کے لیے دوائیاں نہیں۔ اے میرے وطن کے لوگو! ایک بات پلے باندھ لو، اس ملک اور اس ملک کے عوام کے مسائل کبھی کوئی حکمران اور کوئی سیاستدان حل نہیں کرے گا۔
مسائل صرف اور صرف سماج کی سانجھ سے حل ہونگے اور ہم عوام ہیں کہ حکمرانوں سے بھی زیادہ بے رحم ہو چکے ہیں، یہاں سب سے بڑا جرم یہ ہورہا ہے کہ غریب، غریب کا گلہ کاٹ رہا ہے، غریب غریب کی جیب کاٹ رہا ہے عید جب بھی آتی ہے، میرے لیے ڈھیروں نئی نئی کہانیاں لاتی ہے، مگر اس بار کی عید توبہ، عشرتوں کی یہ نوید توبہ۔۔۔ چھوٹی تنخواہوں اور تھوڑی کمائی والے لوگ اپنے جاننے والوں سے یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اگر آپ کا کوئی صاحب حیثیت جاننے والا ہے تو اسے امداد و زکوٰۃ کے لیے میرا موبائل نمبر دیدینا۔
اس سال بچوں کی خوشیاں پوری نہ کرنے پر صرف باپ اور شوہروں نے انفرادی خود کشی ہی نہیں کی، لوگوں نے بیوی بچوں کو قتل کرکے خود کشیاں کیں، گھروں میں لڑائی جھگڑوں کے بعد ایسے سانحات تبھی رونما ہوتے ہیں جب لوگوں کے لیے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں، مارکیٹوں میں اس عید پر بھی بیٹیوں کے لیے پانچ پانچ سو روپے مالیت کے ریڈی میڈ کپڑے موجود تھے جنھیں خرید کر ایسے گھروں میں تحفے کے طور پر بھیجا جا سکتا تھا۔
حکمرانوں کو کیا پتہ کہ جب خوشیوں سے محروم بچے ایسے تہواروں پر راتوں کو سونے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی معصوم آنکھوں سے آنسوؤں کے کتنے دریا بہتے ہیں، اور ہم ہیں کہ بے بسوں کی تصویروں میں آرٹ تلاش کرتے ہیں، جب زندہ تصویریں مرجاتی ہیں تو ان کے عکس لاکھوں میں خرید کر اپنے ڈرائنگ روموں کی زینت بنا لیتے ہیں، پاکستان میں جو کام کرنے بہت ضروری ہیں ان میں ایک تو ہے پیشہ ور بھکاریوں کا مکمل قلع قمع، دوسرا یہ کہ ہم اپنی روزانہ کی کمائی، ہفتے کی کمائی یا ماہانہ آمدن سے کچھ حصہ ناداروں کے لیے رضاکارانہ طور پر مختص کریں، اور اپنے ارد گرد، گلی محلوں میں، علاقوں میں اور اپنے دفاتر یا کام کے مقامات پر لوگوں کا دھیان رکھیں۔
ایک دوسرے سے ربط بڑھائیں، ایک دوسرے کو دوست بنائیں تاکہ لوگ دل کی بات کر سکیں، ایک دوسرے پر اعتماد کو بڑھاوا دیا جائے، اے لوگو! آؤ، ہم ایک خاندان، ایک کنبہ بن جائیں، تاکہ ہمیں حکمرانوں اور بالادست طبقات کی جانب دیکھنا ہی نہ پڑے، 72سال سے ظلم کی چکی میں پسنے والے محکوموں نے مڈل کلاسیہ حکومت بنا کر بھی دیکھ لی، پہلی حکومتوں کی طرح اس کے اقرباء پروری کے اسکینڈل باہر آنے لگے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ آخری اُمید ہے، اگر اس نے کچھ نہ کیا تو آیندہ نسل تک بھی کوئی "تبدیلی" پر اعتبار نہیں کرے گا۔ اس لیے اس کورونا سے جڑی عید پر ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور سادگی سے عید منا کر اگلی عید کی تیاری کر لیں تو یہی بہتر ہوگا!