سویلین شہداء کے لیے خراج شہداء پروگرام۔ مگر!
دیر آئید درست آئید کے مصداق، دو دہائیوں کی التجائوں، درخواستوں اور خطوط کے بعد سرکار کو خیال آہی گیا کہ جس طرح پاک افواج کے شہداء کی الگ شناخت ہے، پولیس کے شہداء کی الگ اور اسی طرح "سویلین شہداء" کی بھی الگ پہچان ہونی چاہیے، جو حکومت کی غلط پالیسیوں کی بھینٹ چڑھتے رہے ہیں۔
سویلین شہداء حقیقت میں عام شہری ہیں جو گزشتہ 20سالوں سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں، ان شہداء کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد ہے جو ملک میں مختلف دہشت گردی کے واقعات کی بھینٹ چڑھے۔
مسجدوں، امام بارگاہوں، پارکوں اور دیگر مقامات پر شہید ہونے والے ان عام شہریوں کے پسماندگان کو نہ تو سرکاری زمین ملتی ہے، نہ ان کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے، نہ کسی سرکاری تقریب میں مدعو کیے جاتے ہیں، نہ ماہانہ وظیفہ مقرر ہوتا ہے، نہ کوئی فنڈ ملتا ہے اور نہ ہی شہید ہونے والے شہری کے بچوں کو سرکاری نوکری ملتی ہے۔ محض اعلان کردہ پانچ دس لاکھ روپے کی رقم فراہم کر دی جاتی ہے، جو شاید اُس شہید کے لواحقین آئوبھگت، اور کفن دفن کے انتظام ہی میں خرچ کر دیتے ہیں۔
جب کہ اس کے برعکس پولیس اور دیگر اداروں کے شہداء کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ انھیں ہر وہ سہولت دی جاتی ہے جس کے وہ حقدار ہیں، یقینا یہ سب کچھ ملنا چاہیے، ہرشہید ہونے والے کا بنیادی حق ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ سے باہر رہی ہے کہ سویلین شہداء کا استحصال کیوں کیا جاتا ہے۔
راقم نے اس حوالے سے ہر پلیٹ فارم پر آواز اُٹھائی، پنجاب اسمبلی سے قومی اسمبلی تک ہر فورم پر آواز اُٹھائی۔ موقع ملا تو پی پی پی قیادت، ن لیگی قیادت اور موجودہ قیادت کے سامنے سویلین شہداء کے حقوق کی بات کی۔ ابھی گزشتہ سال ہی عثمان بزدار سے ایک نشست ہوئی جنھوں نے اس حوالے سے یقین دہانی کرائی کہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے گی۔
ان کاوشوں کا ثمر یہ ملا کہ موجودہ پنجاب حکومت نے حالیہ بجٹ میں یہ نوید دی ہے کہ پنجاب حکومت "سویلین شہداء" کے لیے "خراج الشہداء پروگرام" کے آغاز کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ پنجاب کے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں یہ بات سن کر یقینا دلی خوشی ہوئی، لیکن اب بھی کھٹکا سا لگا ہے کہ بقول شاعر کوئی اس حق کی راہ میں روڑے نہ اٹکا دے کیوں کہ
حرف تسلی تو اک تکلف ہے
جس کا درد، اسی کا درد، باقی سب تماشائی!!
خیر ابھی بجٹ پیش ہوا ہے، دیکھتے ہیں بحث مباحثے کے بعد کتنی رقم اس حوالے سے مختص کی جاتی ہے، ابھی یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا خراج الشہداء پروگرام محض خراج تحسین ہی پیش کرے گا یا شہداء کے خاندانوں کی بحالی کے لیے بھی کوئی اقدام اُٹھایا جائے گا۔ ابھی یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ پروگرام دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا لقمہ بننے والے شہداء پر بھی لاگو ہوگا یا نہیں؟ یا خاکم بدہن صرف مستقبل میں شہید ہونے والے شہداء کے لواحقین ہی اس حوالے سے فائدہ اُٹھا سکیں گے۔
اگر ایسا ہے تو یہ پروگرام کسی کام کا نہیں! کیوں کہ آپ اُن شہداء کے خاندانوں سے ملیں، اُن کی بیوائوں سے ملیں وہ ایسی ایسی داستانیں آپ کو سنائیں گی کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ آپ اس حوالے سے ذراتصورکر کے دیکھ لیں کہ ایک لاکھ سے زیادہ خاندانوں کے افراد اُن بم دھماکوں، خودکش حملوں، فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگئے جو ریاست کی غفلت، ناقص سیکیورٹی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں "اہم اتحادی"ہونے اورغلط حکومتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گئے، اب یہ خاندان کس حال میں زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔ اُن کے گھر کی خواتین مہنگائی کے اس دور میں کس طرح گزر بسر کر رہی ہوں گی، اور اب تو ویسے بھی لاک ڈائون نے جینے کو تصور بھی چھین لیا ہے تو یہ ضرور دیکھیں کہ اُن کے بچے کہاں اور کس حال میں ہوں گے؟ اُن کے بچوں کے اسکول کی فیسیں کون دیتا ہوگا؟ مائوں کا علاج کون کرواتا ہوگا؟
ذرا ایک منٹ کے لیے یہ بھی تصور کر لیجیے کہ اگر وہ کرائے کے مکان میں رہتے ہوں گے تو اب اُن کا پرسان حال کون ہوگا؟ یہ تصور بھی کرنا چاہیے کہ کہیں اُن کے بچے جرائم پیشہ تو نہیں بن گئے؟ یہ تصور بھی کر لینا چاہیے کہ مذکورہ خاندان کے افراد فاقہ کشی کا شکار تو نہیں؟ اس ظالم سماج میں یہ تصور کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ کہیں اُن کی بیویاں مجبور ہو کر غلط راستے پر تو نہیں نکل پڑیں؟ ہمیں شاید یہ بھی تصور کر لینا چاہیے کہ حکومت کی غفلتوں کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے عام شہری کی بیوی نے بچوں سمیت نہر میں چھلانگ تو نہیں لگا لی؟ اب تصوراتی دنیا سے باہر آکر دیکھیں تو یہ حقیقت ضرور عیاں ہوگی کہ یہ وہ شہداء اور اُن کے خاندان ہیں جنھیں سرکاری سطح پر نہ توکہیں یاد کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے خاندان کے پاس کوئی سرکار کا نمایندہ جاتا ہے۔
یہ وہ خیالات و تصورات ہیں جنھیں ذہن میں رکھ کر راقم نے کئی جگہ آواز اُٹھائی، ویسے بھی دنیا بھر میں شہید ہونے والے شہریوں کے لیے شمعیں روشن کرنے سے لے خاندان کے ہر فرد کےSettledہونے تک سرکار چین سے نہیں بیٹھتی۔ کیوں کہ وہ سمجھتی ہے کہ اس خاندان کا واحد خود کفیل حکومت کی غفلت کی وجہ سے جاں بحق ہوا ہے۔
دنیا بھر میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں دس بارہ افراد ہلاک ہوجائیں وہ ان کی یاد میں صدیوں دن مناتے اور انھیں یاد رکھتے ہیں مگر یہاں ایک ایسا مکینزم بن گیا ہے جس کے ہم سب عادی ہو گئے ہیں، قاتل بھی، مقتول بھی، لاشوں پر رونے والے بھی اور حکومتی عہدے دار بھی۔ سب کو اپنے اپنے رول کا پتہ چل گیا ہے کس نے کب مارنا، کس نے مرنا، کس نے ماتم کرنا اور کس نے مذمت کرنی ہے۔ اب دس پندرہ بندے مر جائیں تو کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ شام تک سب بھول چکے ہوتے ہیں۔ بقول شاعر
یہ تمہاری تلخ نمائیاں کوئی اور سہہ کے دکھا تو دے
یہ جو ہم میں تم میں نبھا ہے میرے حوصلے کی بات ہے
بہرکیف میرے خیال میں سویلین شہداء کے لیے خراج الشہداء پروگرام کا آغاز کرنا کافی نہیں اس کے لیے ایک وزارت قائم ہونی چاہیے جو سویلینز شہداء کا ریکارڈ مرتب کرے، ان کی کفالت کا بندوبست کرے۔ لہٰذاوزیر اعظم عمران خان صاحب! میں آج پھر یہی کہوں گا کہ ان شہداء کا حساب میں نے نہیں سابقہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ آپ نے بھی روز قیامت دینا ہے۔ قیا مت کے دن یہی لوگ ہوں گے جنھوں نے حکمرانوں کا گریبان پکڑا ہوگا۔