سوچ اور فکر
ایمرسن نے کہا ہے کہ " تم جوکچھ ہو اس ہونے کا شور میر ے کانوں میں اس قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا " ہم جوکچھ ہیں وہ ہمارے بولنے یا کرنے کی نسبت کہیں زیادہ اونچی اور صاف آواز میں سنا جاتا ہے۔
ہم اپنے متعلق چاہے سرگوشیوں میں کہیں یا چیخ چیخ کر کہیں کہ ہم مہذب ہیں ہم تعلیم یافتہ ہیں ہم دنیا بھر کے امن کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں، ہم روشن خیال ہیں اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لیے کہ ہمارے کہنے اور ہمارے عمل میں اتنا فاصلہ ہے کہ ہم اسے الفاظ کے پل سے قریب نہیں لاسکتے۔ ہم اب دنیا بھر کی نظروں میں صرف بارودی سرنگیں ہیں چلتی پھرتی بارودی سرنگیں۔
لگتا ہے جوڈی ولیمزنے 1997 میں نوبل انعام لیتے وقت ہمارے لیے ہی کہا ہوگا کہ " بارودی سرنگ ہمیشہ ابدالآباد تک شکار کے لیے تیار رہتی ہے عام الفاظ میں بارودی سرنگ مستعد ترین سپاہی ہے جنگ ختم ہوجاتی ہے مگر بارودی سرنگ موت کا کھیل جاری رکھتی ہے" سب سے پہلاسچ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عقل کو مرے سالوں بیت چکے ہیں اور ہم سالوں سے عقل کے بغیر زندہ ہیں۔
اس عقل کے بغیر جس سے ڈیکارٹ کو محبت ہوگئی تھی، سپینو زا نے اس کے لیے فاقے کیے تھے برونواس کی خاطر جلایاگیا تھا انقلاب فرانس نے عقل کی حسین دیوی کی پر ستش کے لیے کئی صنم کدے تعمیر کیے تھے، سقراط نے اس کی خاطر زہر کا پیالہ پیا تھا۔
اب ہمارے خیالات، احساسات، فکر، سو چ اور عمل سب کے سب عقل سے بے نیاز ہیں۔ یاد رہے ہمارے افکار و احساسات، فکر و سوچ آسمان سے نہیں ٹپکتے اور نہ ہی زمین و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں بلکہ تہذیب کے دوسرے عوامل کی طرح وہ سماجی حالات کی پیدوار ہوتے ہیں، اس لیے جس طبقے کا غلبہ معاشرے کی ساری قوتوں پر ہوتاہے اسی طبقے کا غلبہ ذہنی قوتوں پر بھی ہوتاہے اسی لیے معاشرے میں اسی کے خیالات و افکار کا سکہ چلتا ہے تو پھر ظاہر ہے ہمارا تویہ ہی حال ہونا تھا ہم بارودی سرنگیں نہ بنتے تو کیابنتے ایسا معاشرہ جہاں جہالت پھیلانے کی کھلی چھٹی ہوجہاں لوگ جہالت کی اندھی دیوی کے پجاری ہوں پھر وہاں خاک نہیں اڑے گی تو کیااڑے گی؟ پھر وہاں بربادی وحشیانہ رقص نہیں کرے گی تو کیاکرے گی؟
اب ہم سب تہذیب و تمدن سے دور، دور وحشت کی وحشت انگیز تاریکیوں کی طرف سفر کررہے ہیں جہالت کے اندھے کنویں میں موٹر سائیکل چلارہے ہیں جس طرح جلدی بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں لازم و معتدی۔ اسی طرح دماغی بیماریوں کی بھی دو قسم ہیں لازم جس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو غورو فکر کا اہل نہ سمجھے اور متعدی یہ کہ دوسروں کو بھی سو چنے نہ دے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں دونوں قسم کی دماغی بیماریاں لاحق ہیں نہ تو ہم اپنے آپ کو غوروفکر کے اہل سمجھتے ہیں اور نہ ہی ہم دوسروں کو سوچنے دیتے ہیں اور اگر کوئی غلطی سے سوچنے کے جرم کا مرتکب ہوجاتا ہے تو ہم فتوئوں کے لٹھ اٹھا کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور اس کی وہ درگت بناتے ہیں کہ وہ آیندہ سو چنے کا سوچتے وقت بھی خوف سے کانپنے لگ جاتاہے۔
حالت یہ ہوگئی ہے کہ شہروں، محلوں اور گلیوں میں غول کے غول گھومتے ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ کوئی سوچنے کی جرأت تو نہیں کر رہاہے، اگرہم تاریخ کے مسافر بن جائیں اور چھ ہزار برس قبل سے اپنے سفر کاآغاز کریں تو ہمیں معلوم چلے گا کہ ابتدائی ریاستیں شہری ریاستیں تھیں جو سب کی سب دریائوں کے کنارے آباد تھیں یہ دھات کا زمانہ تھااور جب تجارت کا آغاز ہوا تو بازار اور شہر وجود میں آئے۔
ان شہروں کا مرکز عبادت گاہیں ہوتی تھیں تمام کی تمام ابتدائی ریاستیں تھیوکریسی تھیں ان ریاستوں کے سر براہ مندروں کے مہاپر وہت ہوتے تھے جو آسمانی دیوتائوں کے نمایندے سمجھے جاتے تھے اور ان کے احکامات دیوتائوں کے احکامات کادرجہ رکھتے تھے اس دور میں عقائد و افکار پر اجارہ داری مذہبی پیشوائوں کو حاصل تھی یہ ہی وجہ ہے کہ بابل، مصر، ایران، یونان، فلسطین، ہندوستان اور چین میں ریاست کو عطیہ خدا وندی قرار دیاگیا اور حاکم کو خدا کا نمایندہ بتایاگیا۔
ریاست کے احکام وقوانین کو فرمان الہی سے منسوب کر دیاگیا سب ہی کا خیال تھا کہ ریاست کی سربراہی اورقوانین عالم بالا سے نازل ہوتے ہیں اور رعایا کا فرض ہے کہ وہ حاکم وقت کی اطاعت اور اس کے احکامات کی پیروی کرے، اسی لیے بادشاہ کا مذہب ریاست کا سر کاری مذہب ہوتا تھا اور مذہبی پیشوا ریاست کے سربراہ سے پورا پورا تعاون کرتے تھے اور اس کے عوض معاوضہ پاتے اور دوسری طرف مغرب میں مسیحی کلیسا بڑی طاقتور ریاستی قوت بن کر ابھرا، جب روم کے شہنشاہ قسطنطین اول نے عیسائی مذہب اختیار کیا اور عیسائیت سلطنت کا سر کاری مذہب قرار پائی تو کلیسیا کی طاقت بہت بڑھ گئی۔
آہستہ آہستہ کلیسیا کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔ پوپ کے مقرر کردہ پادری لاکھوں کی تعداد میں شہروں میں پھیل گئے اور کلیسازندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہوگئی آگے چل کر کلیسا اور بادشاہوں میں اختیارات اور جاگیرداروں پر خوفناک جنگ کاآغاز ہوااور کلیسا کو شکست ہوئی۔ اسی اثنا میں امریکا اور ہندوستان کے بحری راستے دریافت ہوگئے اسپین، پرتگال، ہالینڈ اور برطانیہ میں نئی نئی تجارتی کمپنیاں قائم ہونے لگیں اورنو آبادیاتی نظام کی داغ بیل پڑی اسی دوران جرمنی میں 1465 میں چھاپہ خانہ ایجاد ہوا۔
کتابوں اور رسالوں کی اشاعت سے مذہبی گروہ کی اجارہ داری ختم ہوگئی سائنسی ایجادات اور دریافتیں اسی زمانے میں شروع ہوئیں اور ان ایجادات سے عقائد و افکار کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ کلیسانے سخت مزاحمت کی برونو کو آگ میں زندہ جلا دیاگیا حالانکہ وہ ایک پادری تھا گلیلیو پر مذہبی عدالت میں مقدمہ چلا، سائنس دانوں کی کتابیں آگ میں جلائی گئیں لیکن صنعت کے فروغ کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کی مقبولیت بڑھتی گئی او ر توہم پر ستی کا زور ٹو ٹتا گیا۔
سادہ لوح عقیدت مندوں سے رقم لے کر جنت کے پروانے جاری کیے جائے، گنڈے اور تعویذ بیچتے، ان ہی تو ہم پرستیوں کے خلاف پر وٹیسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا ان معاشرتی اور مذہبی انقلابوں کے ساتھ ساتھ ریاست پر جاگیرداروں کے بجائے تاجروں اور صنعت کاروں کا غلبہ بڑھتا گیا۔ سب سے پہلے برطانیہ نے 1688 میں تھیو کریسی کو ختم کیا لیکن بقیہ یورپ کو اس کام میں مزید 100 سال لگ گئے پھر انقلاب فرانس نے تھیوکریسی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
یاد رہے تھیوکریسی ظلمت پر ستوں کاآخری حربہ ہوتا ہے جو خدا کی حاکمیت کی آڑ میں اپنا راج قائم کرتے ہیں، جو لوگوں کو سوچنے کے پیدائشی حق سے محروم کردیتے ہیں۔ اب ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ بچاہے یا تو ہم عقل کی بھیک مانگیں اور جب خدا ہمیں عقل سے ایک بار پھر نواز دے تو ہم زندگی کے ہر معاملے میں خود سوچنے کے عمل کاآغاز کر دیں۔ خود سوچیں نا کہ آپ پر کوئی دوسرا اپنی سوچ مسلط کرے۔