تعلیم کو تباہ ہونے سے بچائیے
کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کا حالیہ رزلٹ کئی اعتبار سے حیران کن اور مایوس کن تھا۔ نتائج کے مطابق نجی و سرکاری کالجزکے 80 فیصد طلبا فیل قرار پائے جن میں اکثریت سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبا کی تھی نتائج کے مطابق 12 سرکاری کالجزکا نتیجہ صفر رہا جن کا کوئی بھی طالب علم پاس نہ ہوسکا۔ اس طرح کے مایوس کن نتائج اورکارکردگی طلبا، والدین اور خود محکمہ تعلیم کے تعلیمی اقدامات پر سوالیہ نشان ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ نے صوبہ بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہوا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں گزشتہ 5 ماہ کے دوران 8 ہزار سے زائد سرکاری اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔ خود سابقہ وزیر تعلیم کے اپنے حلقے میں 1215 اسکول بند کیے گئے ہیں۔ تھرپارکر جیسے پسماندہ علاقے میں جہاں تعلیم کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے 708 اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے جب کہ بند کیے جانے والے اسکولوں کے عملے کو کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہوں کی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔
شرح خواندگی بڑھانے کی بجائے ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اسکولوں کو بند کرکے شہریوں کو تعلیم کے حصول کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار جو پہلے ہی خراب تھا مزید تنزلی کی طرف گامزن ہے، نجی سیکٹر میں تعلیم کا شعبہ خالصتاً کاروبار اور لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بن چکا ہے۔ معیاری تعلیم کا حصول سرمایہ کاری سے مشروط ہوچکا ہے۔
دہرا نہیں بلکہ تہرا تعلیمی نظام قائم ہوچکا ہے جو والدین نامی گرامی اور مہنگے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتے ہیں نامی گرامی، مہنگے اور شہرت یافتہ ٹیوشنز سینٹرز اور نامور سبجیکٹ اسپشلسٹ اساتذہ سے ٹیوشن پڑھوانے پر لاکھوں روپے خرچ کرسکتے ہیں اور سیلف فنانس کے متحمل بھی ہوسکتے ہیں انھی کے بچوں کا تعلیمی مستقبل محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم غریب و متوسط طبقے کی استطاعت سے باہر ہوچکی ہے عام طالبان کی غالب اکثریت اچھی قابلیت و صلاحیت رکھنے کے باوجود تعلیمی سرمایہ کاری کلچر کی وجہ سے اجتماعی استحصال اور ناانصافی کا شکار ہو رہی ہے۔
اساتذہ کے تقرر، تعیناتیوں، ترقیوں، تبادلوں اور تنخواہوں کی ادائیگیوں تک میں کھلے عام وسیع پیمانے پر کی جانے والی بد نظمی و بد عنوانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ تعلیمی امداد دینے والے یورپی یونین اور ورلڈ بینک جیسے عالمی ادارے ان پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں اور شفافیت یقینی نہ بنانے پر امداد روکنے کی وارننگ بھی دیتے رہے ہیں۔
سندھ میں اساتذہ اور عملہ سالہا سال سے عدم تحفظ و غیر یقینی صورتحال اور اقربا پروری اور ناانصافیوں پر سراپا احتجاج ہے، جس کی وجہ سے تعلیم دینے میں ان کی دلچسپی اور استعداد کار بھی متاثر ہوتی ہے کبھی احتجاج کرنے والے سینئر اساتذہ و پروفیسرز سڑکوں پر لاٹھیاں کھاتے اور واٹرکینن کے پانی میں نہاتے نظر آتے ہیں، آنسو گیس سے ان کی اشک شوئی کا اہتمام کیا جاتا ہے تو کبھی اسکول اساتذہ اور خصوصاً خواتین اساتذہ کے ساتھ بھی یہ عمل دہرایا جاتا ہے جن کی درگت دیکھ کر آس پاس کے لوگ مذمت کرتے نظر آتے ہیں کچھ ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اساتذہ کے ساتھ یہ سلوک اچھے معاشرے کے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔
آج کل سندھ بھر کے ہیڈ ماسٹر سراپا احتجاج ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کا تقرر آئی بی اے سے ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد عمل میں آیا تھا۔ انھیں 2 سال کنٹریکٹ پر خدمات دینے کے باوجود مستقل کرنے کے بجائے نوکریوں سے فارغ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ جب کہ سندھ بھر میں اساتذہ کی 5 ہزار آسامیاں خالی ہیں انھیں بلاوجہ فارغ کیا جا رہا ہے جب کہ ان کا تقرر میرٹ پر ہوا تھا ان اساتذہ کا کہنا ہے کہ انھیں اچھی کارکردگی پر اعزازی سرٹیفکیٹ دیے گئے تھے۔
وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم کی جانب سے انھیں مستقل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر اب حکومت ان کی حق تلفی کرکے اپنے من پسند اور غیر تعلیم یافتہ ہیڈ ماسٹر لگوانا چاہتی ہے۔ پریس کلب پر مظاہرہ کرنے والے ان اساتذہ کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود حکومت کے کسی نمائندے نے ان سے رابطہ نہیں کیا جس کی وجہ سے انھوں نے احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب پیش قدمی کی تھی جس پر پولیس نے ان پر دھاوا بول دیا اور لاٹھی چارج، واٹر کینن اور شیلنگ کا استعمال کیا جس سے کئی اساتذہ زخمی و بے ہوش ہوگئے بہت سوں کو گرفتار کرلیا گیا۔
تعلیم کے معاملے میں وزارت تعلیم، محکمہ تعلیم اور بورڈ آفسز تک بدانتظامیوں اور بدعنوانیوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ہر سطح پر خرابیوں کا اجتماع ہے اعلیٰ افسران کی تقرریوں، ترقیوں اور تبادلوں سے لے کر امتحانات تک مسلسل بدنظمی، بدانتظامی، بدعنوانیوں اور نااہلیت کے مظاہرے میڈیا کے ذریعے سامنے آتے رہتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق نقل مافیا ایک سیزن میں ایک ارب روپے کماتی ہے۔ دو سال قبل تو امتحانات میں انتہا کی بدنظمی اور بدعنوانی دیکھنے میں آئی تھی میڈیا میں ان کی تفصیلات آنے کے بعد اعلانات و بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ خود وزیر اعلیٰ نے وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کے ہمراہ امتحانی مراکز کے طوفانی دورے کیے تھے جہاں روشنی نہیں تھی وزیر اعلیٰ نے اپنی جیب سے بلب لگوائے۔
امتحانی پرچوں کی چھپائی اور ترسیل کے کام کی نگرانی میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو بھی شامل کرلیا گیا تھا پرچے بھی ان کی نگرانی میں کھلوائے جاتے تھے۔ امتحانی امور میں معاونت اور نقل روکنے کے لیے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، مختار کاروں اور پولیس کو بھی شریک کرلیا گیا تھا جس کے بعد یہ خبریں بھی آئیں کہ اختیارات کا غلط استعمال شروع کردیا گیا ہے۔ اس کی آڑ میں امتحانی مراکز کے آس پاس عام لوگوں کو حراست میں لے کر ان سے مال بٹورنے کی خبریں بھی آئیں۔
کیا اس قسم کے وقتی و نمائشی نوعیت کے اقدامات سے بد انتظامی، بد نظمی، بد عنوانی اور نقل کلچر کا خاتمہ ممکن ہے؟ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے پاس کوئی واضح نصب العین ہے نہ ہی امتحانات کے سلسلے میں کوئی جامع پالیسی ہے بار بار وہی غلطیاں دہرائی جاتی ہیں، اس وقت کے چیئرمین بورڈ نے الزام لگایا تھا کہ نقل مافیا انتظامیہ کو فیل کرکے اپنی مرضی کی انتظامیہ لانے کی کوششیں کر رہی ہے جس کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ سب سے پہلے ایڈمٹ کارڈ کی ترسیل کا مسئلہ پیدا کیا جائے اس کے بعد سی سی اوز کے ذریعے پرچہ شروع ہونے سے قبل آؤٹ کرائے جائیں، تیسرے مرحلے میں ایوارڈ لسٹوں میں رد و بدل کیا جائے اور ان تمام مرحلوں میں میڈیا کو بطور ہتھیار پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جائے۔ چیئرمین بورڈ کی جانب سے عائد کیے جانے والے سنگین الزامات کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کراکے مستقبل میں ان کے تدارک کے اقدامات کیے جانے چاہیے تھے لیکن ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔
جب تک محکمہ تعلیم سے نا اہلوں اورکالی بھیڑوں کا صفایا کرکے تقرریوں، تعیناتیوں، ترقیوں، تبادلوں اور داخلوں میں اہلیت کو معیار نہیں بنایا جائے گا، تعلیمی معیار روبہ زوال رہے گا، اہل طلبا کا اجتماعی استحصال ہوتا رہے گا جس کے طلبا اور ملک کے مستقبل پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ کاش! ہمارے ارباب اختیار و اقتدار اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اس مسئلے کی سنگینی کو محسوس کریں۔