Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Adnan Ashraf
  3. Janglat, Maholiyat Ke Muhafiz

Janglat, Maholiyat Ke Muhafiz

جنگلات، ماحولیات کے محافظ

درختوں کو زمین کا زیورکہا جاتا ہے۔ یہ جانداروں کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں، موسم معتدل رکھتے ہیں، طوفان اور آندھیوں سے بچاؤکرتے ہیں، مٹی کو محفوظ اور پانی کے بہاؤ اور بارش وسیلاب کی صورت میں مٹی کے کٹاؤ سے بچاؤکرتے ہیں، جنگلی حیات کی افزائش اور خوراک و تحفظ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ تفریح کے مواقعے فراہم کرتے ہیں۔ درختوں سے غذائی خوراک کے علاوہ بے شمار مصنوعات بھی تیارکی جاتی ہیں جو جی ڈی پی کی شرح میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

پاکستان میں جنگلات زمین کا صرف 4 فیصد ہیں ان کا بھی 2 فیصد سالانہ غیر قانونی طریقے سے ختم کر دیا جاتا ہے۔ روس میں جنگلات زمین کا 45 فیصد ہیں، جو دنیا میں سب سے بڑی شرح ہے اور اس کے جنگلات کا رقبہ پورے بر اعظم آسٹریلیا کے برابر ہے، جب کہ آسٹریلیا میں جنگلات زمین کا 17 فیصد ہیں اور یہ ملک جنگلی حیات سے بھی مالا مال ہے۔

حالیہ آتشزدگی میں وہاں 2 کروڑ سے زائد جانور ہلاک ہوئے ہیں۔ چند سال پیشتر انتظامی ضروریات کے تحت کروڑوں کینگروزکو ہلاک کیا گیا تھا۔ حالیہ آتشزدگی کے بعد 10 ہزار اونٹوں کو ہلاک کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومتی موقف یہ ہے کہ کیونکہ اونٹ پانی زیادہ استعمال اور ذخیرہ کرتے ہیں اور آتشزدگی کے نتیجے میں کیونکہ وسیع و عریض رقبے میں ہزاروں فارم ہاؤسز، مکانات و عمارات اور فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔

لہٰذا پانی میں کفایت شعاری کی ضرورت کے تحت یہ اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جنگلات اور درختوں میں اضافے کے بجائے ان کا تیزی سے خاتمہ کیا جا رہا ہے جس کی شرح 2 فیصد سالانہ بتائی جاتی ہے، جب کہ صنعتی ترقی اور آبادی کے تیز ترین اضافے کی وجہ سے درختوں اورکھیتوں کو تیزی سے ختم کرکے وہاں فیکٹریاں اور سوسائٹیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ قدرتی جنگلات سے درختوں کی چوریاں اورکٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے KPK میں ملین ٹری تسونامی پلان کا اعلان کیا تھا جس کے تحت صوبے میں 18 بلین درخت لگانے اور انھیں 2 ملین تک لے جانے کا پروگرام تھا لیکن اس پروگرام میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی شکایات سامنے آئی ہیں جن پر تحقیقات جاری ہیں۔

اسلام آباد کے جنگلات میں ٹمبر مافیا منظم اور مسلسل طور پر جنگلات کا صفایا کرنے پر کمربستہ ہے۔ قانون بھی موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد اور مافیا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے، عدالت عظمیٰ تک معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے حکومت کی سرزنش کرچکی ہے۔ لیکن اس مافیا کی سرگرمیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔ اربوں روپے کی چوری پر چند ہزار کے جرمانے ہیں جب کہ رات کے اندھیرے میں انھیں کھلی چھٹی ہے کہ وہ اپنی آزادانہ کارروائیاں جاری رکھیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو عصر حاضر کی ضرورت کے مطابق قانون سازی کرکے درخت چوروں پر بھاری جرمانے اور سزاؤں کا اطلاق کرنا چاہیے۔

پنجاب میں محکمہ انہار اور محکمہ جنگلات میں اختیارات و مفادات کی کشمکش اور لڑائی ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بتایا گیا ہے کہ محکموں کی ملی بھگت سے لاکھوں درخت چوری ہو رہے ہیں۔ چھانگا مانگا سے 10 سال کے دوران 6 ارب روپے مالیت کے اعلیٰ معیار اور اہمیت کے حامل درختوں کی کٹائی کرکے ان کی بیش قیمت لکڑیاں فروخت کی گئی ہیں۔ پنجاب میں نہروں کے اطراف میں 33 ہزار کلومیٹر کے رقبے پر درخت لگائے گئے تھے تاکہ نہروں کے پشتے اور کنارے مضبوط ہوں اور ماحول کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنیں لیکن سب تباہی سے دوچار ہیں۔

سندھ کی ساحلی پٹی اور سمندری جزائر میں لاکھوں ایکڑ پر محیط تیمر کے جنگلات پائے جاتے تھے جو مسلسل کٹائی کی وجہ سے اب صرف چند ہزار ایکڑ تک باقی رہ گئے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ سمندر میں گندا پانی، صنعتی فضلہ اور کچرا پھینکا جا رہا ہے۔ جس سے سمندری آلودگی میں اضافہ اور آبی حیات کے لیے خطرات پیدا ہو رہے ہیں، اکثر و بیشتر ساحل پر ہزاروں کی تعداد میں مردہ مچھلیوں کے پائے جانے کی اطلاعات آتی رہتی ہیں اب کراچی کے ساحل گندے پانی اور بدبو کی وجہ سے سیر و تفریح کے قابل بھی نہیں رہے جس کی وجہ سے کراچی کے شہری پکنک کے لیے بلوچستان کے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں مگر ہمارا محکمہ تحفظ ماحولیات اس جانب سے آنکھیں موندھے بیٹھا ہے۔ ٹمبر مافیا سمندر جزائر سے بڑی تعداد میں لکڑیاں کاٹ کر ابراہیم حیدری کی مختلف جیٹیوں پر کشتی کے ذریعے لاکر انھیں شہر کی مارکیٹوں میں فروخت کرتی ہے۔

اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث عناصر کو بااثر افراد کی آشیرباد اور پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جب کہ ماحولیات پر کام کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری ادارے اور محکمہ جنگلات کے افسران تیمر جنگلات کی کٹائی کے عمل پر خاموش اور غیر متحرک نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں طویل عرصے سے میڈیا اور شہری آواز احتجاج بلند کر رہے ہیں لیکن متعلقہ حکومتی اداروں کے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگتی۔ کوسٹل میڈیا سینئر ابراہیم حیدری کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ تیمر کے جنگلات جھینگا مچھلی کی افزائش کے لیے نرسری کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں چھوٹے بڑے سمندری طوفانوں کے خطرات سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔

گزشتہ مون سون کے دوران مختلف سمندری طوفانوں نے کراچی شہر کا رخ کیا تھا لیکن خوش قسمتی سے ان کا رخ تبدیل ہو گیا تھا۔ ذمے داروں کا کہنا ہے کہ اگر یوں ہی تیمر کے جنگلات کا خاتمہ ہوتا رہا تو عنقریب ہمارے ماہی گیروں کی ساحلی بستیوں سمیت کراچی شہر کسی بڑی طوفانی تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ انھوں نے ابراہیم حیدری کے جیٹی مالکان سے اپیل کی ہے کہ وہ تیمر مافیا کی طرف سے کاٹی گئی لکڑیوں کو اپنی جیٹیوں پر اتارنے کے عمل پر مکمل طور پر پابندی کا اعلان کریں۔ انھوں نے حکومت سندھ سے تیمر کی کٹائی میں ملوث مافیا اور انھیں تعاون فراہم کرنے والے محکمہ جنگلات کے کرپٹ افسران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سرزمین پاکستان کو فطرت کی تمام رعنائیوں، حسن و خوبصورتی سے نوازا ہے یہاں قدرتی جنگلات ہیں، سرسبز وادیاں، دریا و صحرا، فلک بوس پہاڑ، برف پوش پہاڑی چوٹیاں، بڑا نہری نظام سب کچھ موجود ہیں۔ ان قدرتی نظاروں اور ہڑپہ، موئن جو دڑو اور ٹیکسلا جیسی تاریخی جگہوں کا تحفظ تزئین و آرائش اور سہولیات مہیا کرکے دنیا کے سیاحوں کو اس طرف متوجہ کرکے کثیر آمدنی و زرمبادلہ حاصل اور روزگار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک امریکی جریدے نے پاکستان کو 2020 کے دس اہم سیاحتی ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ برطانوی شاہی جوڑے کے پاکستان کے سیاحتی سفر کے بعد دنیا کو یہ پیغام پہنچا ہے کہ پاکستان محفوظ سیاحتی ملک ہے۔

مالم جبہ کے برف پوش پہاڑوں پر اسکینگ کے مقابلوں اور برف کار ریل جس میں خواتین نے بھی شرکت کی اور پوزیشن لیں اس نے لوگوں کی اس طرف توجہ اور دلچسپی مبذول کرائی ہے حکومت جو سیاحت کے فروغ کے عزم کا اظہار بھی کرتی ہے اسے اس سلسلے میں منظم و مربوط عملی اقدامات کا آغاز کرنا چاہیے جس کے لیے متعلقہ محکموں میں اہل و دیانتدار افراد کو تعینات کرکے ایسے لوگوں کی تطہیر کرنا چاہیے جو اختیارات کا غلط استعمال کرتے اور اپنے مفادات کے لیے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتے جس کے مظاہرے گزشتہ دنوں شاہی قلعہ میں منعقدہ مہندی کی تقریب یا اسلام آباد، پنجاب اور سندھ کے تیمر جنگلات کی کٹائی کے تسلسل کی صورت میں سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔

Check Also

Adab

By Idrees Azad