Awami Raye Mein Hukumat e Waqt
عوامی رائے میں حکومتِ وقت

پاکستان کا سیاسی منظرنامہ ہمیشہ سے غیر یقینی صورتحال کا شکار رہا ہے۔ کبھی فوجی مداخلت، کبھی جوڈیشل ایکٹیوزم اور کبھی عوامی بیداری، یہ سب عوامل اس منظرنامے کو مسلسل بدلتے رہے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں عوامی رائے کا حکومتِ وقت سے متعلق جو رجحان سامنے آیا ہے، وہ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ مستقبل کے سیاسی ڈھانچے کے لیے بھی اشارے دے رہا ہے۔
2024 کے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت، جسے اتحادی جماعتوں کی مدد سے اقتدار ملا، اپنے ابتدائی دنوں ہی سے چیلنجز کا شکار رہی۔ معاشی بحران، مہنگائی میں ہوشربا اضافہ، بجلی و گیس کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ اور سب سے بڑھ کر بے روزگاری جیسے مسائل نے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔ نتیجتاً، عوامی رائے میں حکومتِ وقت کے بارے میں مثبت رائے کم اور منفی تاثرات زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
اگر ہم مختلف سرویز اور سوشل میڈیا رجحانات کو دیکھیں، تو واضح ہوتا ہے کہ ایک بڑی اکثریت حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ یہ عدم اطمینان صرف اپوزیشن کے حامیوں تک محدود نہیں بلکہ ان حلقوں تک بھی پہنچ چکا ہے جنہوں نے انتخابات میں موجودہ حکمران اتحاد کو ووٹ دیا تھا۔ عوام کے اس بدلتے ہوئے مزاج کا ایک اہم سبب معاشی پالیسیاں ہیں جو عام آدمی کی زندگی کو براہ راست متاثر کر رہی ہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد نے حکومت کو مقامی پالیسی سازی سے محدود کر دیا ہے۔ حکومت کی کوششیں اگرچہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور معیشت کے استحکام کے لیے ہو رہی ہیں، مگر ان کے اثرات عام شہری پر مہنگائی، ٹیکسز اور سبسڈی کے خاتمے کی صورت میں پڑ رہے ہیں۔ نتیجتاً، عوامی رائے میں حکومت کو ایک ایسی انتظامیہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو زمینی حقائق سے کٹی ہوئی ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے حکومت پر شدید تنقید شروع کر رکھی ہے۔ عوامی جلسے، ریلیاں اور میڈیا پر بیانات، سب کچھ حکومت کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ جو سوشل میڈیا پر متحرک ہے، وہ حکومت کے اقدامات پر فوری ردعمل دیتا ہے اور یہ ردعمل اکثر تنقیدی ہوتا ہے۔
لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ حکومت نے کچھ مثبت اقدامات بھی کیے ہیں جنہیں یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات، سی پیک منصوبوں کی بحالی اور بین الاقوامی سطح پر سفارتی تعلقات کی بہتری جیسے کام حکومت کی ترجیحات میں شامل رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے یہ اقدامات عوامی مشکلات کے سامنے دب کر رہ گئے ہیں۔
عوامی رائے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ لوگ اب محض زبانی دعووں سے مطمئن نہیں ہوتے۔ انہیں نتائج درکار ہیں اور وہ بھی فوری۔ سیاسی بیانات، الزامات اور وعدے اب متاثر نہیں کرتے۔ اس بدلتی ہوئی عوامی سوچ نے حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اگر حکومت نے عوامی رائے کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو آنے والے بلدیاتی انتخابات اور آئندہ عام انتخابات میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں عوامی رائے نے کئی مواقع پر سیاسی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے۔ 2008-2013 اور 2018 کے انتخابات اس بات کی مثال ہیں کہ کس طرح عوامی رائے نے برسراقتدار جماعتوں کو اکھاڑ پھینکا۔ موجودہ حکومت کو بھی اسی تناظر میں عوامی جذبات کو سمجھنا اور ان کے مطابق اپنی پالیسیوں کو ترتیب دینا ہوگا۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ عوامی رائے ایک آئینہ ہے جو کسی بھی حکومت کو اس کی کارکردگی کی سچی تصویر دکھاتا ہے۔ اگر حکومتِ وقت اس آئینے میں اپنی اصل صورت دیکھنے کی ہمت رکھتی ہے، تو وہ اصلاحات کے ذریعے خود کو بہتر بنا سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر، تاریخ گواہ ہے کہ عوامی رائے کبھی خاموش نہیں رہتی اور جب یہ بولتی ہے تو بڑے بڑے ایوان ہل جایا کرتے ہیں۔

