Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Adnan Adil/
  3. Sarkari Schoolon Ki Halat e Zaar

Sarkari Schoolon Ki Halat e Zaar

سرکاری اسکولوں کی حالت ِزار

ایک سال پہلے وفاقی حکومت نے ایک تعلیمی فریم ورک کا اعلان کیا تھا جس میں اپنی چار ترجیحات بیان کی تھیں۔ اوّل، اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لانا، تعلیم کا معیا ر بہتر بنانا، نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے اداروں کی استعداد بڑھانا، مختلف قسم کے تعلیمی اداروں میں دی جانے والی تعلیم کو یکساں بنانا۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے حکومت رینگ رینگ کر چل رہی ہے۔ اس فریم ورک کے مطابق چند ماہ پہلے وفاقی حکومت نے یکساں نصاب تعلیم کا اعلان کیا ہے جو سرکاری، غیرسرکاری اور مدارس میں یکساں طور پر لاگو کیا جائے گا۔ تاہم حکومت نے ابتدائی فریم ورک میں جوتین دیگر اہداف مقرر کیے تھے ان میں ابھی تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال گزر گئے لیکن تعلیم کے شعبہ میں ایک بھی بڑا ٹھوس کام نہیں کیا گیا۔ حالانکہ اُمید تھی کہ ماضی کے برعکس وزیراعظم عمران خان کی ترجیحات میں تعلیم کا شعبہ سرفہرست ہوگا۔ ابھی تک وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کی خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں ایسے اقدامات نہیں کرسکیں کہ اسکول نہ جانے والے بچے بڑی تعداد میں اسکول جانا شروع ہوجائیں۔ سوا دو کروڑ بچے بدستوراسکولوں سے باہر ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ کورونا وبا سے تعلیمی نظام میں خلل آیا ہے لیکن وبا پھوٹنے سے پہلے بھی اس سمت میں کوئی کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

جہاں تک تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی بات ہے تو نہ ہمیں سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈز کی کتابوں میں کوئی بہتری دکھائی دیتی ہے نہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں، کالجوں کی حالت ِزار میں۔ سرکاری تعلیمی ادارے کم و بیش اُسی ڈگر پر چل رہے ہیں جس پر طویل عرصہ سے چلتے آرہے ہیں۔ کئی سرکاری اسکول ایسے ہیں جہاں پانچ جماعتوں کے لیے صرف ایک استاد ہے۔ کئی ایسے اسکول بھی ہیں جہاں اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے لیکن پڑھنے والے بہت کم ہیں۔ دیہات کے بہت سے اسکولوں میں استاد مقرر ہیں لیکن روزانہ ڈیوٹی پر نہیں جاتے۔ محکمہ تعلیم کی نگرانی کمزور ہے۔ معائنہ کرنے والے غیر حاضر اساتذہ سے رشوت خوری کرکے انہیں چھوٹ دیے رکھتے ہیں۔ سب سے برا حال دیہات کے حکومتی اسکولوں کا ہے۔ ہر سال صوبائی حکومتیں سینکڑوں ارب روپے ان اسکولوں پرخرچ کرتی ہیں، زیادہ تر عملہ کی تنخواہوں پر لیکن اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ذمہ داری سے تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام نہیں دیتے۔ ان کی توانائی پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانے پر صرف ہوتی ہے۔

موجودہ بیوروکریٹک انتظامی ڈھانچہ تعلیم کے نظام کو چلانے اور اسکا معیار قائم کرنے میں بُری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسکولوں کے ہیڈ ٹیچرز کے اختیارات بہت محدود ہیں۔ جو اساتذہ کام نہیں کرنا چاہتے انہیں ہیڈ ٹیچرز سے تادیبی کارروائی کاخوف نہیں۔ ہیڈ ٹیچر زیادہ سے زیادہ محکمہ تعلیم کو انکی رپورٹ کرسکتا ہے۔ اگر ہیڈماسٹر یا ہیڈ مسٹرس کے پاس اپنے زیرنگرانی اساتذہ کو معطل کرنے یا نوکری سے برخاست کرنے کے اختیارات ہوں تو بیشتر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اسکولوں میں نظم و ضبط بہت بہتر ہوسکتا ہے۔ لوگوں کی نفسیات ہے کہ جب تک ان کا نگران افسر انہیں نقصان پہنچانے کا اختیار نہ رکھتا ہو وہ اُسکی بات نہیں سنتے۔ ہیڈ ٹیچر اپنے اختیارات کاغلط استعمال نہ کرے اسے غرض سے تحصیل اور ضلع کی سطح پرنگران تعلیمی بورڈز بنائے جاسکتے ہیں جن میں محکمہ تعلیم کے افسران کے ساتھ ساتھ سرکاری افسران جیسے اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز شامل ہوں۔ یہ بورڈز اسکولوں کے ہیڈ ٹیچرز کے معاملات کی نگرانی کریں اور ان کے خلاف شکایات پر کارروائی کرسکیں۔ تحصیل اورضلع کی سطح پر ہی اسکولوں کے معاملات حتمی طور پر حل ہوجانے چاہئیں۔ آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ دُور دراز واقع تعلیمی اداروں کا نظام صوبائی دارالحکومتوں سے مؤثر طریقہ سے نہیں چلایا جاسکتا۔

آدھا تیتر آدھا بٹیر کا نظام بھی نہیں چل سکتا کہ کچھ اختیارات تحصیل اور ضلعوں کودیے جائیں اورکچھ صوبائی افسرشاہی کو۔ اس سے مزید خرابی پیدا ہوتی ہے۔ بگاڑ پیدا ہو توکوئی بھی پوری طور پر ذمہ داری نہیں لیتا۔ اسکولوں کی انتظامیہ کے تمام اختیارات مکمل طور پرضلع یا تحصیل کی سطح پر ہونے چاہئیں۔ صوبائی حکومتوں کا اسکولوں کے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے۔ ضلعے یا تحصیلیں خود بجٹ بنائیں۔ عملہ بھرتی کریں۔ نگرانی کریں۔ ڈسپلن کی کاروائی کریں اور ضرورت پڑے تو کسی کو نوکری سے برخواست کریں۔ اسکولوں کے اسٹاف کی نوکری ضلعی حکومت کی ہونی چاہیے، صوبائی حکومت کی نہیں۔ پہلے لوگ ملازمت لینے کی خاطر دیہات کی پوسٹنگ قبول کرلیتے ہیں۔ چند ماہ، سال بعد شہر میں ٹرانسفر کرانے کی سفارشیں شروع کردیتے ہیں۔ دیہات کی آسامیاں پھرخالی ہوجاتی ہیں۔ آئیڈیل تو یہ ہے کہ تمام سرکاری اسکول تحصیل انتظامیہ کے ماتحت ہوں تاکہ انکی نگرانی کا کام زیادہ مؤثر طریقہ سے انجام دیا جاسکے۔ ضلعی صدر مقام بھی دیہات سے بہت دُور واقع ہوتا ہے۔ وہاں تک غریب لوگ فوری طور پر اپنی مشکلات یا شکایا ت رجسٹر نہیں کراسکتے۔ تحصیل انتظامیہ عوام سے قریب ترین ہوتی ہے۔ وہ انکے روزمرہ مسائل کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ اور سلجھا سکتی ہے۔ تحصیل ہیڈکوراٹر سے نگران افسران چھوٹے قصبوں اور دیہات میں آسانی سے جاکر اسکولوں کا باقاعدہ معائنہ کرسکتے ہیں۔ اساتذہ کی حاظری اور تدریس میں دلچسپی کو چیک کرسکتے ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ تعلیم کے شعبہ میں حکومت اتنا خرچ نہیں کررہی جتنا اسے کرنا چاہیے۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جتنا بجٹ مختص کیا جاتا ہے اسکا بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے، بدانتظامی اور کرپشن کے نتیجہ میں۔ رواں مالی سال میں پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے نظام کے لیے930 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہُواہے۔ وفاقی اور صوبائی دارلحکومتوں میں بیٹھی طاقتورافسر شاہی ہر چیز پر اپنا آہنی کنٹرول چاہتی ہے۔ قوانین اور قواعد ایسے بنائے ہوئے ہیں جن سے ہر چھوٹا بڑا کام انکی مرضی سے انجام پائے۔ اختیارات کی یہ مرکزیت تعلیمی نظام کی متعدد خرابیوں کا باعث ہے۔ تحریک انصاف اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا نعرہ اور وعدہ کرکے اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن اصلاحات کی جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا۔ یہ درست ہے کہ وفاقی سطح پر سینٹ میں اکثریت نہ ہونے کے سبب قانون سازی میں مشکلات ہیں لیکن تعلیم کا شعبہ تو صوبائی دائرہ کار میں آتا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں قانون سازی کرکے تعلیمی ڈھانچہ میں اصلاحات تو کی جاسکتی ہیں۔

Check Also

Kisan Ko Maar Kyun Nahi Dete?

By Raheel Moavia