عروج و زوال کا دستور
ہر انسان عروج و زوال کی حقیقت سے واقف ہے اور چاہتا ہے کہ اسے کبھی ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کا عروج حاصل کرے۔ ہر کوئی عروج کا خواہاں اور زوال سے دور بھاگتا ہے، لیکن عروج صرف چاہنے سے نہیں ملا کرتا، بلکہ اس کے لیے مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور حصول عروج کے اصول ضوابط پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ عروج کو دوام حاصل ہے، نہ زوال ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ حالات بدل جاتے ہیں اور عروج و زوال بھی بدلتے رہتے ہیں۔
ہر زوال کے کئی اسباب ہوتے ہیں اور ہر عروج کچھ بنیادیں رکھتا ہے۔ جو کوئی بھی عروج حاصل کرنا چاہتا ہے، اس پر لازم ہے کہ ان اسباب اور بنیادوں پر غور و فکر کرے اور ان کو ہمیشہ مدنظر رکھے۔ کردار، رویہ، سوچ اور عمل عروج یا زوال کی منزلیں متعین کرتے ہیں اور اس لیے اپنے کردار، رویے، سوچ اور عمل میں تبدیلی لانا پڑتی ہے۔ جو ایسا نہیں کرتا اور اپنی خامیوں کو مسلسل نظر انداز کرتا چلا جاتا ہے، وہ نہ تو کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ ہی عروج حاصل کرسکتا ہے۔
عروج کے خواہش مند تو سب ہی ہیں، لیکن جو لوگ قانون قدرت اور اس کے پس پردہ اسباب و علل کو سمجھ لیتے ہیں، وہ عروج کی منزلیں جلد اور آسانی سے طے کرتے ہیں۔ جو بھی جدوجہد، عقلمندی اور مہارت سے کام لے، علوم و فنون کو دوست رکھے، وہی عروج حاصل کرتا ہے، یہ کوئی فرد بھی ہوسکتا ہے اور قوم بھی ہوسکتی ہے۔ جو کوئی عمل کرتا ہے، وہی کامران ٹھہرتا ہے۔ انسانی معاشرے کے عروج کا سفر معاشرے کے افراد کی انفرادی سوچ سے شروع ہوتا ہے اور یہ انفرادی سوچ ان کے قول و فعل کی بنیاد رکھتی ہے۔
جب بھی کوئی معاشرہ عروج پر پہنچا ہے، ان کا سفر ان کے افراد کی سوچ و فکر سے شروع ہوا ہے۔ ان کی فکر و سوچ کا محور و مرکز اجتماعی بن جاتا ہے۔ قوموں کو کامیابی، ترقی اور عروج حاصل کرنے کے لیے طویل عرصے تک جدوجہد کرنا پڑتی ہے، جو قوم مسلسل محنت سے اپنے دور تشکیل سے گزرتے وقت حالات کو پلٹ دے، وہ بحران کی کیفیت سے باعافیت گزر کر اپنی تعمیر کے ہنگامہ خیز سفر کا مقابلہ کرتی ہے اور کامیابی اسی کے قدموں کی دھول بنتی ہے۔
مسلمانوں کا ماضی عروج و زوال کی ایسی ہی ایک داستان سناتا ہے۔ قدرت نے مسلمانوں کو دنیا میں عروج دیا، لیکن مسلمان اس عروج کو سنبھال نہ سکے۔ مسلمان کتاب اللہ کے حامل بنائے گئے تھے، تاکہ اس کے قوانین پر عمل پیرا ہوکر عروج کی منازل طے کریں، لیکن بدقسمتی سے انھوں نے ان قوانین پر عمل نہ کیا۔ کتاب نازل تو اس لیے ہوئی تھی کہ مسلمان اس کے ذریعے اپنے اختلافات ختم کریں گے، لیکن مسلمانوں نے اختلافات پیدا کرنا شروع کر دیے۔
ماضی گواہی ہے کہ جو قوم بھی تفرقہ کا شکار ہوئی، عنانِ حکومت اس کے ہاتھوں سے جاتی رہی۔ مسلمان مذہبی، سیاسی اور لسانی حوالوں سے آپس میں دست و گریباں ہوگئے۔ دین کو اپنے اختلافات کو ہوا دینے کے لیے استعمال کرنے لگ گئے۔ مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک شان و شوکت کے ساتھ دنیا پر حکمران رہے۔ علم و حکمت، تدبیر و سیاست، طاقت و قوت اور دولت و حشمت میں کوئی قوم اْن کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
اس دور میں کامیابی مسلمانوں کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی نظرآتی ہے، لیکن رفتہ رفتہ یہ کامیابی، ناکامی میں بدلنے لگی۔ مسلمانوں کو کامیابی دی تو قدرت نے تھی، لیکن گنوائی خود مسلمانوں نے ہے۔ قدرت جب کسی قوم کو سرفرازی کے لیے منتخب کر لیتی ہے تو یہ حالت اْس وقت تبدیل کرتی ہے، جب وہ قوم خود اپنے آپ کو پستی میں گرا دیتی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ دنیا میں ہر کامیابی کا حوالہ علم ہوا کرتا ہے۔
مسلمانوں نے علمی ترقی کی مضبوط بنیادیں ڈالیں۔ غرناطہ، قرطبہ، بغداد، دمشق، اشبیلیہ وغیرہ میں علمی اور تحقیقی مراکز کا قیام عمل میں آیا۔ یونان، ہندوستان اور چین کی معروف علمی تصانیف کے عربی تراجم مکمل کیے گئے۔ مختلف علوم کی ترویج کے لیے بھرپور کام کیا گیا۔ مسلمانوں نے علم کے ذریعے دنیا پر حکم رانی کی۔ طب، فلسفہ، کیمیا، ریاضی، جغرافیہ اور دیگر سائنسی مضامین میں مسلمان سائنس دانوں نے اپنا مقام پیدا کیا، مگر ہم نے اپنے اجداد کے علوم و فنون کو فراموش کردیا۔
علم، تحقیق و عمل سے دْور ہوئے تو ہمارا زوال شروع ہوگیا۔ آج مغربی دنیا تحقیق کے شعبے میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔ انھوں نے سائنسی علوم میں مہارت پیدا کی۔ ان علوم پر مکمل گرفت اور مہارت ہی وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے۔ کئی غیر مسلم سائنس دانوں نے قرآن مجید کا مطالعہ کرکے تحقیق و عمل کو آگے بڑھایا۔ ہمارے اسلاف کی لکھی گئی کتب اور ان کے نظریات کو بنیاد بنا کر دنیا میں کامیابی حاصل کی ہے۔
مغرب برق رفتاری سے ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھ رہا ہے، لیکن اس نے کتاب سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ وہاں کتاب کی اہمیت آج بھی بہت زیادہ ہے۔ آج بھی وہاں کتاب کے اوراق کواسکرین سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، کیونکہ ہر ایجاد اور ترقی کی بنیاد کتاب ہے۔ ہمارے یہاں موبائل کی حکمرانی کے بعد کتاب کی اہمیت بہت کم ہوگئی ہے۔ ہمارا علم صرف ڈگری کے حصول تک محدود ہو چکاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری مسلم دنیا میں موجود یونیورسٹیوں کی تعداد اور ان کا معیار، مغرب کی یونیورسٹیوں کی تعداد اور ان کے معیار کے سامنے ہیچ معلوم ہوتا ہے۔
پوری مسلم دنیا میں عالمی معیار پر پورا اترنے والی شاید ہی کوئی یونیورسٹی ہو۔ علوم سے عدم توجہی مسلمانوں کو عروج سے زوال کی گھاٹی میں گرانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دنیا دارالاسباب ہے۔ یہاں جو کرو گے، وہی ملے گا۔ آج جو بوؤ گے، کل وہی کاٹو گے۔ دنیا میں جن قوموں نے اپنی غلطیوں کی اصلاح کر کے وقت کے تقاضوں پر عمل کیا، ان کو عروج مل گیا اور جن اقوام نے اپنی خامیوں کی اصلاح نہیں کی، تنزلی ان کا مقدر بنا۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے ایٹم بم گرا کر جاپان کی ترقی کو نیست و نابود کردیا تو جاپان نے نئے سرے سے اپنی ترقی کے سفر کا آغاز کیا اور آج جاپان دنیا میں اپنی حیثیت منوا چکا ہے۔ پوری دنیا کی منڈی جاپان کی مصنوعات سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے لیے بھی زوال کی گھاٹی سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب الٰہی پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ان تمام خامیوں سے کنارہ کشی اختیار کریں، جن کی وجہ سے ہمارا عروج، زوال میں تبدیل ہوا ہے۔