سدباب ضروری ہے
ملک بھر میں روز بروز جنسی زیادتی کے ایسے خوفناک حقائق و واقعات سامنے آتے ہیں جن کو شیطانیت و درندگی کے کھلے مظاہرکے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس قسم کے واقعات پاکستان کا تیسرا سنگین ترین جرم بن چکے ہیں۔
وطن عزیز میں ایسے دلخراش سانحات کی روک تھام نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ میں قوانین اور بل منظور ہوئے، لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا، مجرم گرفتار ہوتے ہیں اور آزاد کردیے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اس حوالے سے جتنے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، صورت حال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
ان کی حکومت نے اس معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے سخت قانون سازی کی ہے، لیکن اس کے لیے قانون سازی ہی کافی نہیں، بلکہ قانون پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کا ساتھ دینا بھی ضروری ہے۔ انھوں نے پوری قوم سے کہا کہ سب کو جنسی جرائم کے خلاف لڑنا ہوگا۔ فیملی سسٹم کو بچانے کے لیے دین نے ہمیں پردے کا درس دیا ہے، اسلام کے پردے کے نظریے کے پیچھے فیملی سسٹم بچانا اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
معاشرے میں فحاشی پھیلے گی تو جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوگا، یورپ میں اب فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ فحاشی بڑھنے سے خاندانی نظام متاثر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد ملک میں نئی بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ بہت سے لوگ وزیر اعظم کے اس بیان کو سراہ رہے ہیں، ان کے نزدیک ملک میں جنسی جرائم کی ایک بڑی وجہ فحاشی کا پھیلنا بھی ہے، جب کہ بعض احباب اس بیان پر تنقید کررہے ہیں۔
ناقدین کا خیال ہے کہ فحاشی کا جنسی جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے وزیر اعظم نے جنسی جرائم کو فحاشی سے جوڑکر متاثرہ افراد کو ہی موردالزام گردانا ہے اور اس سے مجرموں کو شہہ ملنے کا خدشہ ہے۔ اس بات میں تو شک کی گنجائش نہیں کہ جنسی جرائم کی وجہ کوئی بھی ہو، اس کے اسباب کچھ بھی ہوں، بہرحال اس کا سدباب ضروری ہے اور مجرموں کے ساتھ نرمی برتنا اور ان کی سزا میں سستی اختیار کرنا معاشرے کو تباہی اور بربادی کی طرف دھکیلنے کے مترداف ہے۔
جنسی درندوں کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے، تاکہ آیندہ کسی کو اس گھنائونے جرم میں ملوث ہونے کی جرات نہ ہو، لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے جنسی زیادتی کے مجرموں کے بارے میں یہ بات کہی ہے کہ معاشرے میں پھیلتی فحاشی اور عریانی لوگوں کی اخلاقیات تباہ کررہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ جنسی زیادتی جیسے گھناؤنے اور غلیظ کام کی طرف مائل ہورہے ہیں۔
اس سے قطع نظر کہ وزیر اعظم کا فحاشی سے متعلق بیان کیا ہے اور لوگ اسے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، ملک میں بڑھتے جنسی جرائم کے پیش نظر فحاشی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جنسی جرائم میں اضافے کے کئی اسباب نہیں، لیکن فحاشی بھی کہیں نہ کہیں جنسی جرائم میں اضافے کا سبب بنتی ہے اور فحاشی کا مطلب صرف فحش لباس یا فحش حرکات و سکنات ہی نہیں، بلکہ ہر وہ عمل اور ہر وہ مواد ہے جو کسی کو بھی جنسی جرائم پر ابھارے، یہ مواد چاہے لکھا ہواہو یا ویڈیو کی شکل میں دیکھا جانے والا ہو۔
دنیا کا کوئی بھی قانون اگر جنسی جرائم کی روک تھام کی کوشش کرے گا تو کسی نہ کسی درجے میں ان اسباب کا سدباب ضرور کرے گا جو جنسی جرائم پر ابھارتے ہیں اور ان اسباب میں فحاشی کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
دنیابھر میں نفسیات علم الجرائم اور عمرانیات کے ماہرین اور قانون ساز اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جنس سے متعلقہ جرائم میں فحش نگاری بڑی قوت محرکہ ہے۔ ماہرین نفسیات فحش مواد کا جنسی جرائم کے ساتھ ہمیشہ سے گہرا تعلق بتلاتے آئے ہیں۔ ماہر نفسیات و سماجیات ڈاکٹر امجد طفیل کہتے ہیں کہ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کی وجہ میڈیا اور انٹر نیٹ کے ذریعے دستیاب ایسا (فحش) مواد ہے جو نوجوانوں کو مسلسل اشتعال کی حالت میں رکھتا ہے اور پھر وہ اپنی تسکین اور تنائو کو کم کرنے کے لیے آسان ہدف کی تلاش کرتے ہیں۔
ماہر نفسیات و ماہر امراض سینہ جنرل فزیشن ڈاکٹر خالد مشتاق کہتے ہیں کہ کوئی چیز دیکھنے یا سننے سے مرد کے دماغ کو سگنل ملتے ہیں، جس کے بعد دماغ ان سگنلز سے مغلوب ہوجاتاہے اور عورت کی طرف کشش پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے زنا کے قریب نہ پھٹکنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو نگاہیں نیچی رکھنے اور عورتوں کو اپنی چادر سینوں پر ڈالنے کا حکم دیا اور مردوں سے ایسے لہجے میں بات کرنے سے روکا گیا جس سے ان کے دل میں بیماری پیدا ہو۔
"جان کورٹ" نے تو باقاعدہ متعدد یورپین ممالک میں جنسی جرائم کی تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ جوں جوں معاشرے میں فحش مواد بڑھا ہے توں توں جنسی جرائم بھی بڑھے ہیں۔ مجرموں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو اسی فحش مواد سے متاثر ہو کر جنسی جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتی ہے۔ تحقیق کے دوران بے شمار ایسے کیسز سامنے آئے کہ مجرم جنسی جرم سے کچھ ہی دیر پہلے فحش مواد دیکھنے میں مشغول تھے۔
2017ء میں نیو یارک کے معتبر میڈیا ہائوس " سی بی ایس نیوز" نے ایک رپورٹ نشر کی جس میں کہاگیا کہ فحش نگاری کے حوالے سے جرائم میں گزشتہ عشرے کے دوران 200 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جس کے بارے میں ان لوگوں کا موقف درست ثابت ہوا جو کہتے ہیں کہ اس اضافے کی وجہ انٹرنیٹ کے ذریعے زہریلے مواد کا آسانی سے پھیلائو ہے۔ 2015ء میں برطانوی چیف جسٹس لارڈ تھامس کا کہنا تھا کہ انھوں نے دو انتہائی پریشان کن کیس نمٹائے ہیں جو انٹر نیٹ پورنوگرافی کے زیر اثر ہوئے۔
ایک کیس میں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مجرم نے اس سے بدترین قدم اٹھایا جو اس نے آن لائن دیکھا۔ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جنسی جرائم کا تعلق اگر فحاشی سے نہیں ہے تو یہ ماہرین قانون، ماہرین نفسیات و سماجیات یہ تعلق ہرگز نہ بتاتے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گلوبل ولیج کے دور میں جہاں ہر چیز تک رسائی بس ایک کلک کی محتاج ہے، وہیں فحاشی و عریانی کا بہت بڑا سیلاب معاشرے کو ڈبو رہا ہے۔ فحاشی اور بے حیائی کو خوبصورت تہذیب بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو بے حیائی کوئی برائی نہیں لگتی۔ فحاشی کی تشہیر کرنے سے قرآن و سنت ہمیں روکتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو اپنی آرائش کو محرمات کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا ہے اور مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ فحاشی کو فروغ دینے والوں کو اللہ تعالی نے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت مسلمان جس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں، وہ پوری دنیا جانتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام خود پر نافذ نہیں کرنا چاہتے۔