ہماری اخلاقی اور مذہبی ذمے داری
ہمارے معاشرے میں اختلاف رائے مخالفت کا روپ دھار چکا اور اس کی وجہ سے عدم برداشت اور نفرت کا رویہ نا قابل یقین حد تک بڑھ چکا ہے، ہرکوئی اپنی رائے کو حرف آخر قرار دے رہا ہے، اپنی رائے سے اختلاف سننا بھی گوارا نہیں۔ یہ فطرت سے متصادم رویہ معاشرے کی نس نس میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ مختلف الخیال انسانوں کے وجود میں ہی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔
ہر انسان ایک ہی طرح کے افکار و نظریات کا حامل نہیں ہوسکتا اور دوسروں کی کسی بات سے اختلاف نہ کرنا جمود کی علامت ہے۔ اختلاف، انسانی فطرت کا خاصہ اورکائنات کا تنوع اور حسن ہے۔ کسی معاشرے میں اختلاف رائے کا ہونا باشعور انسانوں کے وجود کا ثبوت ہے۔
اختلاف رائے انسانی ذہن کے دریچوں کو کھولتا ہے اور اندازِ تفکر میں وسعت پیدا کرتا ہے۔ دنیا کا ہر معاشرہ اختلاف رائے کو تسلیم کرتا ہے اور دنیا کا ہر مذہب اور ہر قانون اختلاف رائے کی اجازت دیتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اختلافِ رائے کی موجودگی اْس معاشرے کے فعال ہونے کا ثبوت ہے، لیکن اگر اختلاف رائے کا مقصد صرف فساد پھیلانا، دوسروں کی تذلیل اور اپنی برتری ثابت کرنا ہو تو یہ ایک قابل مذمت فعل ہے۔ زندگی کے ہر شعبے کے افراد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
ادیبوں، مفکروں، صحافیوں، ڈاکٹروں، وکلاء، استاد اور شاگرد میں اختلاف ہوتا ہے۔ میاں بیوی، بہن بھائیوں، والدین اور اولاد کی رائے میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے اختلاف رائے کو برا نہیں سمجھا جاتا، لیکن افسوس کی بات ہے سیاسی و مذہبی معاملات میں اختلاف رائے تصادم کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ مذہبی اور سیاسی معاملات میں اختلاف رائے کی وجہ سے ہر حد پار کر لی جاتی ہے۔
اختلافی گفتگو کسی نظریے یا موقف سے شروع ہوکر ذاتیات اور طعن و تشنیع تک پہنچ جاتی ہے۔ مخالفین پر ایسے ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ مخالفین پر فتوے لگائے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ کمپئین چلائی جاتی ہے۔ ایک دوسرے پر غدار، بیرونی ایجنٹ اور ملک دشمنی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو غلط ناموں سے پکارا جاتا ہے اور بہت ہی افسوس ناک بات یہ ہے کہ صف اول کے مذہبی اور سیاسی رہنما نہ صرف ان منفی رویوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، بلکہ خود بھی جلسوں میں مخالفین کے خلاف سطحی زبان استعمال کرکے اپنے انتہا پسند ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ رویے بہت ہی افسوس ناک ہیں۔ ہر انسان کسی بھی معاملے میں مختلف سوچ اور نظریہ رکھنے اور اپنی مرضی سے عمل کرنے میں آزاد ہے۔
ہر انسان کسی بھی معاملے میں اپنی الگ رائے رکھ سکتا ہے۔ اسے مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی فکرکو پسند کرے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ تعاون کرے، کسی انسان پر زبردستی نہیں کی جا سکتی، لیکن حیرت ہے یہاں سیاسی و مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے۔ بات لڑائی جھگڑوں سے لے کر قتل و قتال تک پہنچ جاتی ہے۔
کسی دوسرے کو الگ رائے اپنانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ اختلاف رائے کی وجہ سے دوسروں کی تذلیل کرنا، مذاق اڑانا، الزام لگانا، پگڑی اچھالنا، کینہ، حسد اور رقابت کے جذبات کو معمولی باتوں پر پروان چڑھانا انتہائی مذموم عمل ہے۔ جب اختلاف سیاسی مقاصد اور حصولِ جاہ و منزلت کے لیے استعمال ہونے لگے تو یہ باعث زحمت و عذاب بن جاتا ہے۔
اختلافات دشمنی کا روپ دھار لیتے ہیں اور باہمی محبت و مودت کے تمام رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی روزہ مرہ زندگی سے لے کر مذہبی و سیاسی معاملات میں اختلافات کے مختلف دائروں اور سطحوں کو باہم گڈ مڈ کر رکھا ہے۔
بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہوتی ہے، لیکن ہم حق و باطل کے پرچم اٹھائے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہوتے ہیں، اگر ہم اختلافات کے دائروں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر اختلاف کو اس کے اصل دائرہ میں رکھیں تو بہت سے تنازعات خودبخود حل ہو جائیں اور باہمی احترام اور رواداری کا ماحول بھی فروغ پانے لگے۔ ہمیں قرونِ اولیٰ و وسطیٰ کے علماء اور فقہاء کے مابین کئی مسائل پر اختلافِ رائے کی مثالیں ملتی ہیں، لیکن ان میں اختلافات کبھی تنازعہ کا باعث نہیں بنے۔ اختلاف چاہے مذہبی معاملے میں ہو یا سیاسی معاملے میں، کبھی اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
گفتگو ہمیشہ تہذیب کے دائرے میں شائستگی سے کرنی چاہیے۔ اپنی بات شائستگی سے دوسرے تک پہنچانا انسان کا مہذب، تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہونا ثابت کرتا ہے۔ کسی موضوع پر مختلف زاویہ ہائے نظر کے افراد کی رائے سننا ہی انسانی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔ مختلف خیالات، افکار اور نظریات کا اظہار، آداب اختلاف اور تہذیب گفتگو کے معیارات کیمطابق ہو تو معاشرے میں مثبت قدریں اور تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ دوسروں کی آراء اور اختلافات کو برداشت کرنا ہماری اخلاقی، آئینی اور مذہبی ذمے داری ہے۔
اختلاف رائے، انسانی زندگی کا حصہ ہے، اگر دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے ان کی رائے کا احترام کریں تو اس عمل سے سوچ اور عمل کی نئی راہیں کھلتی ہیں اور دوسروں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ کسی فرد میں پختگی اور اعتدال اْس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ دوسرے کی رائے کو برداشت کرنا سیکھا جاتا ہے۔ اس طرح معاشرے کا سیاسی، سماجی اور معاشی نظام آگے بڑھتا رہتا ہے، اگر ہم نے سماج کو ترقی دینی ہے اور آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اختلاف رائے، رواداری اور مکالمے کے کلچر کو بڑھانا ہوگا۔ اپنے رویے بدلنا ہوں گے اور اختلاف رائے کے ساتھ جینے کے آداب سیکھنا ہوں گے۔
ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرامز دکھانے کی ضرورت ہے جس میں مدلل طرز گفتگو، انداز اختلاف کے قرینے، موثر و دلنشیں اظہار بیان، مخالف موقف کو سننے کے سلیقے اور آداب اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سکھایا جائے۔
ان پروگرامز میں ادبی، سماجی، سیاسی اور مذہبی پس منظر رکھنے والی ایسی شخصیات کو بلایا جائے جو مختلف امور پر اختلاف نظر رکھتی ہوں اور اختلاف رائے کے آداب اور سلیقہ جانتی ہوں۔ ناظرین ان سے عملی طور پر آداب اختلاف سیکھیں۔ مصنفین اس موضوع پر کتابیں لکھ کر قوم کی رہنمائی کریں۔ ہمارے معاشرے میں ہر موضوع پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے، لیکن آج سب سے زیادہ اختلاف رائے اور برداشت پر لکھنے کی ضرورت ہے۔
آج پورا معاشرہ بحیثیت مجموعی عدم برداشت کا شکار ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس موضوع پر بہت کم لکھا جاتا ہے۔ چند روز قبل نوجوان فاضل حافظ ذیشان یاسین نے اپنی کتاب آداب و اسباب اختلاف بھیجی۔ یہ ایک خوبصورت کتاب ہے۔ اس میں مصنف نے اختلاف رائے کے آداب اور سلیقہ کے متعلق لکھا ہے، جو ہمارے لیے قابل تقلید ہے۔