وعدے، دعوے اور یو ٹرن
پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے گلگت میں عمران خان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی کی اور الیکشن چوری کیا۔ یہ فائول پلے ہے بلاول میاں، آپ ایک معصوم رہنما پر غلط الزام لگا رہے ہیں۔ خان صاحب نے دھاندلی کی ہے نہ چوری کی۔ سچ پوچھیے تو انہوں نے سرے سے کچھ کیا ہی نہیں۔ پنجاب میں ایک لطیفہ مشہور ہے۔ کسی نے اپنے دشمن کو قتل کیا اور لاش ایک میراثی کے گھر پھنکوا دی۔ مخبری ہوئی، پولیس پہنچ گئی۔ تھر تھر کانپتے میراثی کو ہتھکڑی لگائی اور تھانے لے گئے۔ تفتیش شروع ہوئی، تھانیدار نے پوچھا، ہاں بتائو! اسے کیوں مارا اور آلہ قتل کہاں ہے؟ میراثی نے ہاتھ جوڑ دیئے اور بولا، سرکار، ہماری مجال نہ ایسی قسمت کہ کسی کو قتل کریں۔ یہ قتل تو مجھے کیا کرایا مل گیا ہے۔ خان صاحب کو جو بھی ملا، کیا کرایا مل گیا یعنی کسی مہرباں نے آکر میری زندگی سجا دی والی بات ہو گئی۔ ورنہ وہ ایسے کہاں کے دھنی کہ الیکشن چوری کر سکتے۔ براہِ کرم الزام واپس لیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ غصے میں آ کر آپ کو اپنے کسی یوٹرن میں پھنسا دیں۔ ٭٭٭٭٭خان صاحب کے اس بیان کی کچھ دنوں سے خوب دھوم مچی ہے جس میں انہوں نے یوٹرن کی "فرضیت" بیان فرمائی تھی۔ فرمایا جو لیڈر یوٹرن نہ لے، وہ بھی کوئی لیڈر ہے۔ لیڈر نہیں، اس جیسا تو کوئی بے وقوف ہو ہی نہیں سکتا۔ تشریح اس کی ایک نہیں، کئی ہوئیں۔ یہی کمال ہوتا ہے بڑے لیڈر کا کہ ایک فقرے کا بیان دے اور اس کی تشریح میں لوگوں کو کتابیں لکھنا پڑ جائیں۔ کسی نے کہا، یہ تو غضب ڈھا دیا، گاندھی، نہرو اور قائد اعظم سبھی کو دائرہ سمجھداری سے خارج قرار دے دیا۔ کسی کو یہ کوڑی ملی کہ ہمشیرہ محترمہ کی دبئی والی جائیداد پر سے توجہ ہٹانے کے لیے شوشہ چھوڑا ہے۔ ایک نے لکھا، خان صاحب معصوم ہیں، انہیں یوٹرن کے معنے ہی معلوم نہیں۔ سادگی میں یہ بیان دے ڈالا لیکن ان صاحب کی "لکھتی" تو خان صاحب نے یہ کہہ کر بند کر دی کہ یوٹرن ہی عظمت کی پہچان ہے۔ زیادہ تر تو ناقد تھے لیکن کچھ نے یوٹرن کے مزید فضائل بیان کیے۔ صدر مملکت کی کرسی پر براجمان ایک صاحب نے تو کہہ دیا، میں خود بے شمار یوٹرن لے چکا ہوں، غنیمت ہے یہ نہیں کہا کہ میں رات کو اگلے دن لیے جانے والے سارے یوٹرن سوچ کر سوتا ہوں۔ اصل بات کچھ اور لگتی ہے۔ خان صاحب 22سال سے جو وعدے کرتے اور عہد باندھتے چلے آ رہے ہیں، ان سب سے یکبارگی جان چھڑانے کے لیے انہوں نے یہ پیش بندی کی ہے، اور کچھ نہیں۔ اب کوئی بھی ان سے ان کے کسی بھی وعدے دعوے پر سوال نہیں کرے گا۔ پتہ ہے جواب میں کیا سننے کو ملے گا۔ ٭٭٭٭٭دعوے وعدے تو بے شمار ہیں لیکن ایک وعدہ ایسا ہے کہ اس سے "یوٹرن" شرعی تقاضا بھی تھا۔ بھلے کسی مفتی مُلّا سے پوچھ لیں، وہ کم از کم اس وعدے پر یوٹرن ہی کو عین شریعت قرار دے گا۔ بھلا کون سا وعدہ؟ ۔ یاد نہیں، انہوں نے کیا وعدہ کیا تھا قرض لینے کے معاملے پر؟ یہ کہ جونہی قرض مانگنے کی نوبت آئی، وہ خود کشی کر لیں گے۔ ایک وعدہ البتہ ایسا تھا جس سے پلٹ جانا تقاضائے شریعت نہیں تھا۔ اس میں مر جانے کی بات کی تھی، خود کشی کی نہیں۔ مرجانے اور خود کشی کرنے میں فرق ہے۔ کوئی یہ کہے کہ اچھا ہے کہ میں مر ہی جائوں تو اسے ایک قسم کا دعائیہ کلمہ کہیں گے۔ 2014ء کے دھرنوں میں جب علامہ صاحب اپنا دھرنا سمیٹ چکے تو خان صاحب نے کہا، میں تو مرکر ہی اٹھوں گا۔ ایسی حکومت میں زندہ رہنے سے موت اچھی! پھر وہ زندہ سلامت اٹھے، یہ دعائیہ کلمات لگتا ہے سچے دل سے ادا نہیں کیے گئے تھے۔ یا پھر گھڑی ہی قبولیت کی نہیں تھی۔ ٭٭٭٭٭ٹرمپ نے پاکستان پر وفادار نہ ہونے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ اسی لیے اس کی سالانہ امداد روک دی۔ بات وہ نہیں ہے جو ٹرمپ نے کی۔ اصل میں تو یہ ہے کہ ہمیں چوس چاس کر اب پھوک سمجھ لیا ہے اور ایک طرف پھینک دیا ہے۔ ورنہ ہم نے جتنی وفاداری امریکہ سے نبھائی، اتنی تو خود امریکہ نے بھی نہیں نبھائی ہوگی۔ پرویز مشرف سے اب تک اس کی جنگ "ہماری" کے نام سے خود لڑی، اپنے شمال مغربی علاقے ویرانوں میں بدل دیئے۔ ہزار ہا شہری لاپتہ کیے۔ مشرف نے خود کتاب میں لکھا کہ کس طرح پکڑ پکڑ کر امریکہ کو دیئے۔ گوانتانامو کا ویرانہ ہمی نے آباد کیا۔ اپنا سب کچھ، سارا سرمایہ خوشی خوشی خود سپردگی کے عالم میں امریکہ کے سپرد کیا۔ کیا سڑکیں، کیا ہوائی راستے، کیا بندر گاہیں، کیا ہوائی اڈے، کیا عقوبت خانے۔ اسلام آباد میں اتنا بڑا امریکی سفارت خانہ بنوا دیا کہ اتنا بڑا پینٹاگون بھی نہیں ہو گا اور بھی بہت کچھ ایسا کیا جو ناگفتنی ہی رہے تو اچھا ہے۔ عکوئی اپنے پروانوں سے ایسا بھی کیا کرتا ہے٭٭٭٭٭کیلے فورنیا کی آگ اتنی مہیب ہو گئی ہے کہ سارا امریکہ ڈر گیا ہے۔ جنگلات کی آگ ساڑھے پانچ ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے 8ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ سو سے زیادہ شہری جل کر ہلاک ہو چکے ہیں اور ان گنت شہری آبادیاں اس کی زد میں آ گئی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ خیال ہے کہ یہ محض جنگل کی آگ ہے۔ لیکن دراصل انہی جنگلوں میں شہر، قصبے، گائوں اور منفرد آبادیاں (ایک ایک دو دو مکانات) آباد ہوتے ہیں۔ اس وقت ایسی کئی آبادیاں ہیں جن کو بھاگنے کی راہ نہیں ملتی۔ مشہور شہر لاس اینجلس اور سکیرا منٹو اس آگ کے تقریباً کناروں پر واقع ہیں۔ کہتے ہیں، ایسی آگ امریکہ تو کیا، اس سے پہلے دنیا میں کبھی نہیں لگی۔ کیلے فورنیا والے بہت ناز کرتے تھے کہ وہ امریکہ کی سب سے مالدار ریاست ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کو بھی اجڈ گنواروں کا نمائندہ کہہ کر ووٹ نہیں دیئے تھے۔ شاید اس آگ سے اس غرور میں کچھ کمی آ جائے۔ عالمی ماحولیات کو سب سے زیادہ، امریکہ نے تباہ کیا ہے، یہ تو اس کا معمولی سا خمیازہ ہے۔ بائبل میں قیامت کی نشانیوں کے حساب سے ابھی تو امریکہ کو جنگل کی آگ کے بہت سے سلسلے بھگتنے ہیں۔