اردو کے "مجے" (1)
محترم ذوالفقار احمد چیمہ صاحب سابق آئی جی پولیس نے اپنے کالم میں شکوہ کیا ہے کہ بھارت میں مودی سرکار اردو کو ختم کر کے ہندی سے بدلنے کی مذموم سازش کر رہی ہے۔ بہت اچھا لکھا ہے لیکن اردو کو ختم یا کم یا ہندی میں ضم کرنے کا کام تو آزادی کے بعد سے ہی بھارت سرکار نے شروع کر دیا تھا، اب کچھ تیزی آ گئی ہو گی۔ مجھے اس کے بارے میں کچھ خاص نہیں لکھنا ہے، بس ایک خیال کسی بات کا آیا ہے، اسی پر لکھنا ہے اور وہ خیال یہ ہے کہ جب تک بھارت کی فلمی صنعت موسومہ بہ بالی ووڈ قائم ہے، اردو کیسے ختم، کم یا ضم ہو گی؟ یہی فقرہ بھارت کے مدرسوں اور بھارت کے تقریباً ہر صوبے میں ہونے والے مشاعروں کے بارے میں بھی لکھا جا سکتا ہے۔ مدرسے تو مسلمانوں کے ہیں اور مسلمانوں ہی کے لئے ہیں لیکن مشاعروں کی مزیدار بات یہ ہے کہ ان کے سامعین میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو ہوتے ہیں۔
فلمی صنعت کا ماجرا یہ ہے کہ مین سٹریم کی تمام فلمیں اگرچہ ہندی فیچر فلم کے عنوان سے بنتی ہیں لیکن ان کی زبان بیشتر اردو ہوتی ہے۔ چلئے، رعایت کرتے ہوئے اسے"ہندوستانی زبان" کی فلمیں کہہ لیں، ہندی بہرحال نہیں ہوتیں۔ ہندی میں بننے والی فلمیں عموماً فلاپ ہو جاتی ہیں چنانچہ ناچار اردو ہی کو اپنانا پڑتا ہے۔ گانے بھی اردو میں ہوتے ہیں۔ خالص ہندی گانے کبھی کبھار ہی ہٹ ہوتے ہیں۔ ان گانوں کی مقبولیت اپنے اندر اردو کا جھنڈا گاڑے ہوئے ہوتی ہے۔
ایک کمال تو پاکستان کے ممتاز ترین اور ریکارڈ میکر اور ریکارڈ بریکر گلوکار نصرت فتح علی نے بھی کر دکھایا۔ مرحوم کا ابتدائی تعارف قوال کے طور پر تھا لیکن پھر وہ کیا غزل، کیا پکا راگ اور کیا دوسری اصناف لحن، سب میں حاوی ہو گئے اور میری کمتر معلومات کے مطابق وہ دنیا کے واحد گلو کار ہیں جن کی ہر دھن "چوری" کر لی گئی۔ مروجہ زبان میں کہئے تو کاپی در کاپی ہوئی۔ مرحوم کمال کے گلوکار تھے۔ خواجہ نظام الدین دھلوی اولیا کی شان میں حضرت امیر خسرو نے جو "رنگولی" (رنگ +ہولی) لکھی، عرصہ دراز سے "گم" ہو چکی تھی، انہوں نے اسے زندہ کر دیا اور ایسے کمال سے گایا کہ سننے والوں کو گھما کے رکھ دیا۔ آج رنگ ہے کے مکھڑے سے شروع ہونے والی اس رنگولی کو پون گھنٹہ تک گایا اور ایک کے بعد تان اور سر بدلتے گئے۔ ویسے امیر خسرو نے بھی کمال ہی کر دیا تھا۔ رنگولی میں ایک جگہ وہ خواجہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں ع
موری چریوں (چوڑیوں) کی لاج خواجہ رکھنا
یہ اسلوب نہ ان سے پہلے کسی کا ہوا نہ ان کے بعد کسی کو پھبا۔ نصرت فتح علی خان نے اس لائن کو ایسے ڈرامائی انداز میں گایا کہ جو پہلی بار سنتا ہے، جھومنے سے پہلے ایک بار تو ششدر رہ جاتا ہے۔
نصرت فتح علی کا ذکر دراصل ان کے ایک فلمی گانے کے حوالے سے کرنا تھا، جس کی مقبولیت نے "پاگل پن" کے ریکارڈ قائم کر دیے۔ گانا عام سا ہے، کوئی بہت زیادہ بلند پایہ اور کمال کا کلام نہیں لیکن نصرت فتح اور پھر ان کے شاگرد راحت فتح علی خاں نے اسے برصغیر کا سب سے زیادہ گایا جانیوالا اور سب سے زیادہ کاپی کیا جانے والا گانا بنا دیا۔ فنا بلندشہری مرحوم کے لکھے ہوئے اس گیت کے بول ہیں ؎
میرے رشک قمر، تونے پہلی نظر
جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
بالکل معمول کی معاملہ بندی ہے۔ لیکن نصرت نے اسے گایا تو ہو گئی "المشہور" ہو کر مقام پا گئی۔ حضرت فنا صوفی شاعر تھے اور قمر جلالوی مرحوم کے شاگرد۔ ان کے کئی بلند پایہ عارفانہ کلام بھی معروف ہوئے۔ اگرچہ یہ غزل ہرکس و ناکس تک نہیں پہنچی لیکن یہ کام 2018ء میں ریلیز ہونے والی فلم "بادشاہو" نے کیا جو ایک عام بلکہ ناکام فلم تھی لیکن اس غزل کی بدولت مشہور ہوئی۔ نصرت فتح علی نے یہ غزلیہ قوالی 1988ء میں گائی تھی اور تیس برس بعد اس فلم میں شامل کی گئی۔ نصرت نے جب یہ غزل گائی تو کچھ عرصہ بعد راحت فتح علی نے اس کا ری میک بنایا (Re sung کہنا چاہیے) فلم نے اوریجنل اور ری میک دونوں شامل کر لئے۔
راحت نے نہ صرف اس کے سر "پالش" اور "ری فائن" کئے بلکہ مکھڑے کا سا زینہ بھی کمال انداز میں مرتب کیا اور بس پھر غضب ہی ہو گیا۔ نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں، کیا کوریا کیا جاپان، کیا جنوبی افریقہ کیا الجزائر، کیا امریکہ کیا یورپ، ہر جگہ یہ غزل سنائی دینے لگی۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بنگلہ دیش جیسے اردو ہندی مخالف ملک میں بنگالی پاپ سنگر کنسرٹ کرتے تو مجمع سے آواز آتی، ارے وہ گائو، میرے روشک کومور۔ موجا آ گیا اور سنگر کو گاتے ہی بنتی۔ ہندی بیلٹ کے اندر بھوجپوری بیلٹ کے لوک اور قصباتی گلوکار بھی اپنے کنسرٹ اسی غزل سے سجانے لگے اور "جب نجر سے ملائی مجا آ گیا" گا کر نوٹ چھاپنے لگے۔
اس کے اتنے ری میک بن چکے ہیں کہ گنے ہی نہیں جا سکتے۔ بعض امیر زادوں نے اسے فحش اور لچر سینما ٹو گرافی کے ساتھ فلمایا لیکن زیادہ تر حدود اور دائرے میں رہے۔ ترکی اور عربی سمیت نہ جانے کس کس زبان کے سب ٹائٹلز کے ساتھ، اپنے فنکاروں پر یہ غزل اوور لوپ کی گئی۔ یہاں تک کہ ترکی کے مشہور رقاص درویشوں نے بھی اسی پر فلم بنائی۔
نصرت کی آواز لے کا جادو اہل مغرب کو بھی اسیر کر گیا۔ بہت سال پہلے ایک مشہور فلمساز نے حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کی زندگی پر فلم بنائی۔ دی لاسٹ ٹمپ ٹیشن آف دی کرائسٹ(The last Temptation of the Christ)کے نام سے بننے والی اس فلم میں مسلمانوں کے نقطہ نظر سے کئی قابل اعتراض باتیں تھیں۔ خیر فلم کا سب سے کمال منظر صلیب دینے کا تھا۔
کیمرہ کئی منٹ تک گھومتا ہے اور بہت ہی طویل سین ہے، جو مظلومیت اور اس سانحے کی سنگینی کو ابھارتا ہے۔ فلمسازوں نے اس سین کے شایان شان پس پردہ موسیقی کے لئے سر جوڑے۔ (جاری ہے)