Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Abdullah Tariq Sohail
  3. Tik Tok Nahi Picnic

Tik Tok Nahi Picnic

ٹک ٹاک نہیں، پکنک

پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول سیاسی طنزو مزاح میں اپنے اسلوب کی وجہ سے شرپسند حلقوں میں بہت مقبول ہیں چنانچہ ان کا شاید ہی کوئی کلپ ہو جو "بری طرح" وائرل نہ ہوا ہو۔ تازہ کلپ ایک ٹی وی پروگرام کا ہے جس میں انہوں نے حکومت پر تین شرپسندانہ حملے کئے ہیں۔ فرمایا 1۔ یہ حکومت نہیں، ٹک ٹاک کمپنی ہے۔ 2۔ تمام وزیروں کی کارکردگی صفر ہے اور 3۔ 70فیصد وزیر مشیر کرپٹ ہیں۔ اس تین نکاتی چارج شیٹ پر غیر شرپسندانہ تبصرہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے کہ یہ کہنا تو سخت زیادتی ہے کہ 70فیصد وزیر مشیر کرپٹ ہیں۔ درحقیقت انہیں کہنا چاہیے تھا کہ 70فیصد وزیر مشیر ایماندار اور باقی 30فیصد سخت اور شدید ایماندار ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آٹے چینی دوائوں اور تیل گیس وغیرہ کے شعبوں میں فقید المثال ایمانداری کے مرتکب ہونے والے انہی 30فیصد شدید ایمانداروں کے زمرے میں شامل ہیں۔ باقی تو موٹر ویز کے ٹول ٹیکس ٹھیکوں اور اربن ٹرانسپورٹ میں کاغذی ٹکٹ چلا کر درمیانے درجے کی ایمانداری پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ ہاں ان وزیروں کے بارے میں یہ بات واضح نہیں کہ انہیں کس زمرے میں رکھا جائے جو لنگر خانے بند ہو جانے کے باوجود یا یہ کہیے کہ لنگر خانے بند ہونے کے بعد بھی ان کے فنڈز کو صدقہ جاریہ سمجھ کر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

رہا ٹک ٹاک کمپنی ہونے کا الزام تو یہ شاید کسی غلط فہمی کے نتیجے میں لگایا گیا ہے۔ صحیح تصویر کشی یوں ہوئی کہ یہ حکومت پکنک منانے آئی ہے اور پکنک کی مدت ابھی پوری نہیں ہوئی۔ جب ہو گی تب پتہ چلے گا کہ قوم کو یہ پکنک کتنے میں پڑی، قبل از وقت تخمینہ لگانے کی ضرورت نہیں اور یہ بھی مدت ختم ہونے کے بعد ہی علم ہو گا کہ پکنک ریزارٹ پر کوڑے کچرے کے کتنے پہاڑ جمع ہو گئے۔

ہاں، کارکردگی صفر ہونے کی بات پر بحث ہو سکتی ہے لیکن جملہ وزراء اس باب میں معذور یعنی بے قصور ہیں کہ کارکردگی کے لئے کچھ وقت لگانا پڑتا ہے جو فی الوقت ان کے پاس نہیں ہے۔ صبح ہی سے انہیں پریس کانفرنسوں پر جوت دیا جاتا ہے، ایک آتا ہے، گھنٹہ بھر خطاب کر کے جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے اور اکثر تو ٹی وی سکرین پر تین تین فریم تین تین وزیروں، مشیروں کے چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک کی آواز آتی ہے، دو کی "میوٹ" رہتی ہے اور جن کی میوٹ ہوتی ہے ان بے چاروں کو پھر سے پریس کانفرنس کرنا پڑتی ہے۔ اپوزیشن کے اکثر پروگرام انہی پریس کانفرنسوں کی نذر ہو جا تے ہیں۔ خود ہی انصاف فرمائیے۔ گوجرانوالہ میں سراج الحق خطاب فرما رہے تھے اور ادھر ایک خاتون مشیر پریس کانفرنس کر رہی تھیں ایسے میں بھلا کس ٹی وی چینل کی مجال تھی کہ ان کو میوٹ کر دیتا۔ چنانچہ سراج الحق "خاموش اداکاری" کرتے نظر آئے۔ شام تک یہ سلسلہ چلتا ہے اور سورج ڈھلنے کے بعد انہی وزیروں مشیروں کو ٹاک شوز میں بھی ذمہ داریاں نبھانا ہوتی ہیں۔ اس کے بعد وہ وقت آ لگتا ہے جسے "رات گئے " کہا جاتا ہے۔ پھر تھوڑی بہت چائے پانی کی پارٹی اور اس کے بعد خواب گاہوں کو روانگی کا مرحلہ۔ گبول صاحب بتائیں کارکردگی کے لئے یہ مجبور معذور لوگ کہاں سے وقت نکالیں جبکہ بے چاروں کو ایمانداری کے معرکے سر کرنے کے لئے بھی وقت نکالنا ہوتا ہے چنانچہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ان تمام حضرات کو معذور سمجھ کر عدم کارکردگی کے الزام سے بے قصور قرار دے دیا جائے۔

جہاں تک عدم کارکردگی کی دیگر وجوہات کا تعلق ہے ان کی وضاحت تسلی بخش حد تک خود وزیر اعظم نے کر دی ہے۔ انہوں نے بتا دیا کہ تیاری نہیں تھی۔ چنانچہ ناقدین کو تنقید کرتے ہوئے ہاتھ"ہولا" رکھنا چاہیے وزیر اعظم نے یہ بھی بتایا کہ ہمیں تو اعداد و شمار سمجھنے میں بھی بہت مشکل ہوئی۔ چنانچہ رعایت دینا لازم ہے۔ ابھی اڑھائی سال ہی گزرے تو پتہ چل گیا کہ تیاری نہیں ہے۔ یہ بھی مقام شکر ہے۔ کچھ لوگ یاد دلاتے ہیں کہ وزیر اعظم نے الیکشن سے ذرا پہلے بتا دیا تھا کہ ہماری ایسی زبردست ٹیم تیار ہوئی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسی ٹیم کبھی نہیں آئی ہو گی۔ وہ ٹیم کہاں گئی تو عرض ہے کہ وزیر اعظم نے زبردست ٹیم کے الفاظ استعمال کیا تھا، کارکردگی اور تیاری کے لفظ تو انہوں نے استعمال ہی نہیں کئے۔ اور زبردست ٹیم کی حد تک ان کی بات درست ہے۔ پچاس سے اوپر تو وزیر مشیر ہی ہیں، اتنی زبردست ٹیم واقعی کب اور کس نے کہاں دیکھی ہو گی۔ بھارت کی آبادی پاکستان چھ گنا سے بھی زیادہ ہے لیکن وفاقی کابینہ میں 24وزیر اور 24وزرائے مملکت ہیں۔ آبادی کے حساب سے بھارت کی کابینہ 350یعنی ساڑھے تین سو وزیروں پر ہوتی تو مودی بھی کہہ سکتے تھے کہ ہماری ٹیم بڑی زبردست ہے۔ لیکن زبردست کابینہ بنانا ہر ایرے غیرے کا کام کہاں۔

ٹیم زبردست ہو تو معاشی اشاریے بھی کیوں زبردست نہ ہوں۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیے چند زبردست اشاریے۔ یہ اشاریے حکومت کے وزیر خزانہ کی وزارت خزانہ نے جاری کئے ہیں۔ بتایا ہے کہ اس سال جولائی سے نومبر کے دوران مالیاتی خسارہ بڑھ گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے اخراجات پچھلے سال کی نسبت 1691ارب سے بڑھ کر 1920ارب روپے ہو گئے یعنی 13.5فیصد سے بھی زیادہ اضافہ۔ اس عرصے میں سرمایہ کاری مزید 17کم ہو گئی۔ نان ٹیکس آمدن 5.5فیصد تک گری۔ تجارتی خسارہ 6.9فیصد بڑھا۔ زبردست۔ بھئی بہت ہی زبردست

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر وزیر اعظم بروقت ریکوڈک پر فیصلہ نہیں کر سکتے تو وہ کیا کر رہے ہیں۔ ایک خط بروقت نہ لکھ سکے اور اب ملک کو چھ ارب 20کروڑ ڈالر کے نقصان (اثاثے منجمد کرنے کی کارروائی شروع ہے) کا سامنا ہے۔ اگر وزیر اعظم کو معاملے کی سمجھ نہیں تھی تو کسی پڑھے آدمی سے پوچھ لیتے۔

Check Also

Mitti Ki Khushbu

By Asad Tahir Jappa