Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Abdullah Tariq Sohail
  3. Takht Multan Ki Peshgi Shamat

Takht Multan Ki Peshgi Shamat

تخت ملتان کی پیشگی شامت

جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی طرف کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے اور جملہ سیاسی نجومیوں کی اطلاع ہے کہ جنوبی بھی نہیں البتہ حکومت نے ملتان میں صوبے کی بجائے ایک سیکرٹریٹ بنانے کا اعلان کر دیا ہے کہ فی الحال اسی پر گزارا کرو بالکل ویسے ہی جیسے لاہور میں بے گھروں کے لئے شیلٹر بنانے کا اعلان ہوا تھا۔ شیلٹر تو بنے نہیں نہ ہی اس کی بنیاد کھدی لیکن ایک آدھ فٹ فٹ پاتھ پر شبینہ جھونپڑ پٹیاں ضرور بن گئیں۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کتنے کام کا ہو گا کتنے کا نہیں۔ یہ تو پتہ نہیں لیکن اس پر قاف لیگ کی طرف سے ردعمل ضرور آ گیا ہے اور ردعمل بڑے مزے کا ہے۔ قاف لیگ کے رہنما طاہر بشیر چیمہ صاحب نے فرمایا ہے کہ ہم تخت ملتان کا راج قبول نہیں کریں گے۔ تخت لاہور کی جو شامت پچھلے برسوں آئی رہی اس کی یاد تازہ ہو گئی۔ خیر سے اب تخت لاہور"مفتوحہ" ہو چکا ہے اس لئے اس پر کوئی گرجتا ہے نہ برستا ہے، البتہ داد کے ڈونگرے برسانے والوں کی کمی نہیں۔ لاہور اور اس کا تخت ان دنوں بزدار کی بزداریوں کی لپیٹ میں ہے۔ براہ کرم بزدداریوں کو ان تاراجیوں کا ہم معنی نہ سمجھا جائے جو تاخت کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ بلکہ اسے تعریفی اصطلاح ہی سمجھا جائے۔ ٭٭٭٭٭"تخت ملتان" کی اصطلاح خوب سہی لیکن قبل از وقت ہے، اگرچہ اس کا پس منظر موثر بہ ماضی ہے۔ جنوبی پنجاب لسانیت کے اعتبار سے تو ایک ہی اکائی ہے یعنی سارے علاقے میں سرائیکی زبان بولی جاتی ہے اور اسی وجہ سے اسے سرائیکی وسیب بھی کہا جاتا ہے اور یہ وسیب محض جنوبی پنجاب تک محدود نہیں، اس میں پختونخواہ کے جنوبی علاقے میں بھی شامل ہیں جو میانوالی اور بھکر کے علاقوں سے ملحق ہیں اور پھر اتنا ہی نہیں، سکھر سے اوپر کے سندھ میں بھی سرائیکی نے خوب سرایت کر رکھا ہے۔ گویا رقبہ کے اعتبار سے "وسیب" شرق تا غرب پھیلا ہوا ہے لیکن ایک قابل لحاظ امر ایسا ہے جس کی رو سے جنوبی پنجاب میں اکائی کے بجائے دوئی آ جاتی ہے۔ یعنی جہاں باقی جنوبی پنجاب کھوسے، مزاری، لغاری، دریشک وڈیروں کا "غلام" ہے، وہاں اس کا وسیع علاقہ بہاولپور ایسی کسی بھی غلامی سے آزاد ہے اور یہاں کے لوگوں نے بہاولپور صوبے کی جو تحریک چلا رکھی ہے، اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ یہاں کے لوگ اس بات سے ڈرے ہوئے ہیں کہ جنوبی پنجاب ایک ہی صوبہ بن گیا تو ہم بھی غلام ہو جائیں گے اور بے شک، تخت ملتان کی غلامی تخت لاہور کی غلامی سے اتنی ہی سخت ہے جتنی "یہاں " کی فانی آگ سے"وہاں " کی غیر فانی آگ۔ چنانچہ یہ تقریباً طے ہے کہ بہالپور کے عوام " متحدہ جنوبی پنجاب" کے حق میں کبھی ہو ہی نہیں سکتے۔ جب کبھی پنجاب کی تقسیم ہوئی تو ایک نہیں، دو نئے صوبے بنیں گے۔ قاف لیگی رہنما نے اسی صورتحال کی ترجمانی کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ قاف لیگی ہیں، انہیں آسانی سے ایک آدھ وزارت دے کر تخت ملتان کا حلقہ بگوش بنایا جا سکتا ہے۔ صوبہ بننے کی سب دور دراز کی باتیں ہیں۔ اس لئے چیمہ صاحب کے بیان کو بھی یا تو لہو گرم رکھنے کا بہانہ سمجھا جائے یا پھر حسن طلب کا شاخسانہ!٭٭٭٭٭ایک ٹی وی پروگرام پر بیٹھے ایک ماہر اقتصادیات فرما رہے تھے کہ حکومت نے ترقیاتی پروگرام جو کٹ لگایا ہے، اس کے نتیجے میں 5لاکھ برسر روزگار افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ خاں صاحب نے کتنی نوکریوں کا "کریا کرم" کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا؟ ہاں، پچاس لاکھ۔ 5لاکھ کا تو یہ بندوبست ہو گیا، باقی رہ گئیں 45لاکھ۔ کئی لاکھ تو ایسے ہیں جو حالیہ انصافی"کساد بازاری" کے نتیجے میں بے روزگار ہوئے لیکن چونکہ ان کی ڈاکومینٹیشن نہیں ہوئی ہے اس لئے گنتی کا تعین نہیں ہو سکتا، پھر بھی گمان غالب ہے کہ دس لاکھ کے لگ بھگ تو ہوں گے ہی۔ گویا پیچھے صرف 35لاکھ کا ٹارگٹ رہ گیا۔ امید ہے کہ اس کے لئے پانچ سالہ مدت پوری ہونے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا، سال ڈیڑھ ہی میں یہ ہدف حاصل کر کے نیا ریکارڈ قائم کرنے کی خبر آ جائے گی۔ ٭٭٭٭٭"یار! یہ ٹرانسفارمیشن کی اردو کیا ہو گی؟ ""ٹرانسفارمیشن کی اردو"قلب ماہئیت" ہے"قلب ماہئیت؟ ، یعنی؟ ""یعنی کایا کلپ""یار کوئی آسان الفاظ میں مطلب سمجھائو""آسان الفاظ…؟ ۔ اچھا تو پھر سنو، چند ماہ پہلے جو ہمارے دوست اور بھائی تھے، غیرت ایمانی کا مظہر تھے اور جن کے دھرنوں کو دیکھ کر دل کرتا تھا کہ "میں " بھی جا کر ان میں بیٹھ جائوں، اب امیر الفساد اور ملک دشمن قرار پائے ہیں۔ قابل گردن زدنی نہ سہی، قابل سپردنی زنجیر آہنی ضرور ہیں۔ آسان الفاظ میں اسی کو ٹرانسفارمیشن اور قلب ماہیت کی تشریح سمجھ لو۔ سمجھ گئے؟ ""جی سمجھ گیا"٭٭٭٭٭وفاقی حکومت نے 50لاکھ مکانات کی تعمیر کے لئے ابتدائی طور پر بھاری رقم کی منظوری دے دی ہے۔ مکان تو خیر کیا بنیں گے (یا یوں کہہ لیجئے کہ کب بنیں گے) لیکن قبلہ انیل مسرت کی پیشگی مسرت دیدنی ہے۔ ماہرین کے ہاں ان مکانات کی تعمیر کے امکانات پر ایک قسم کا اتفاق رائے ہے جس کا ذکر یہاں مناسب نہیں۔ بہرحال اس "اتفاق رائے" سے یاد آیا، چند روز قبل پشاور کے ایک اخبار نویس نے اپنی ڈائری میں پختونخوا کے حکومتی منصوبوں پر نظر ڈالی خصوصیت والا فقرہ ایک ارب والی درخت کاری سے متعلق تھا۔ لکھا تھا "کاغذات کی حد تک ٹھیک، لیکن زمین پر ان درختوں کو دکھانا شاید ہی کسی کے لیے ممکن ہو" بس اس درخت کاری کے حوالے سے یہ گھر کاری بھی بالکل ممکن ہے یقینا ممکن ہے۔ ٭٭٭٭٭وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا قادری صاحب نے فرمایا ہے"ریاست مدینہ کے ثمرات جلد مل جائیں گے۔ ان کے بھانجے نے تو یہ "ثمرات" اپنے مخالف کو دے بھی دئے۔ خیر، وفاقی وزیر کی مراد شاید اس بات سے ہو کہ جدید ریاست مدینہ میں غریب آبادی کے لئے سال کے بارہ مہینے ہی"رمضان المبارک" کے ہوا کریں گے۔ روزہ دارو، فاقوں اور ثواب دارین کے لئے تیار رہو!

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad