سلیمانی ٹوپی کا سفر
خیال تھا کہ عمران حکومت کی تین سالہ کامرانیوں کا جشن کئی روز جاری رہے گا لیکن یہ پھول تو بس ایک میوزیکل شو کی بہار دکھانے کے بعد مرجھا گیا۔ میوزیکل شو بہت اچھا تھا لیکن زیادہ تر ہائوس ہولڈرز نے شاید کسی فنی خرابی یا ضروری مصروفیات کی بنا پر ٹی وی سوچ آف کر دیے۔ نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ جشن کا نام نکھرنا ابھرنا سنورنا پاکستان رکھا گیا، جس پر کسی حاسد نے گرہ یوں لگائی کہ اجڑتا سسکتا اور تڑپتا پاکستان۔ گرہ بدذوقی کا مظاہرہ تھی، اصل بات وہی تھی جو سرکاری اشتہاروں میں بیان کی گئی یعنی نکھرتا سنورتا پاکستان۔ یقین نہ ہو تو خود نکل کر دیکھ لیجئے۔ بہرحال، نظر کچھ یوں بھی لگی کہ نکھرتے سنورتے پاکستان کے اشتہار میں جو تصویریں لگائی گئیں وہ بھارتی نکلیں۔ اس پر اپوزیشن والوں نے غل غپاڑہ کیا۔ خیر، تصویریں بھارت کی تھیں تو مطلب یہ نہیں ہے کہ نکھرتا سنورتا بھارت۔ نکھرتا سنورتا صرف پاکستان اور بس۔ بحث میں خجل خراب و خوار ہونے کی ضرورت نہیں۔
٭میوزیکل شو سے ایک دن پہلے وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کی کارکردگی کو حیرت بھرا خراج تحسین پیش کیا۔ فرمایا کہ آپ نے اتنے زیادہ کام کئے ہیں، کسی کو نظر ہی نہیں آتے۔ اس حیرت کے تالے کی دو چابیاں ہیں۔ چابی نمبر ایک یہ ہے کہ بیشتر کاموں نے سلمانی ٹوپی پہن رکھی ہے اس لئے کسی کو نظر نہیں آتے اور یہ سلیمانی ٹوپی والا معاملہ نہیں ہے۔ پختونخواہ میں عمران خاں نے 360ڈیم بنا ئے، سب نے یہ ٹوپی پہن رکھی ہے، کوئی ایک بھی دکھائی دیتا ہے نہ پکڑائی۔ اسی طرح ایک ارب درختوں والے بلین سونامی نے بھی جانی گینٹک gigenticسائز کی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ شروع میں یہ سمجھا گیا کہ ایک ارب کے ایک ارب درختوں نے یہ سلمانی پردہ فرما لیا لیکن پھر سرکاری کاغذات کی رپورٹ باہر آئی اور پتہ چلا کہ صرف تین کروڑ درخت تھے، باقی بھی کبھی نہ کبھی لگ جائیں گے چنانچہ تصحیح کرنا پڑی اور صحیح عبارت پھر یوں بنی کہ تین کروڑ درختوں نے سلمانی ٹوپی پہن لی۔ باقی جب وہ فرمائیں گے تو یہ ٹوپی پہنیں گے۔ یہ تین کروڑ کہاں ہیں، پختونخواہ کے کئی احباب سے رہنمائی چاہی، سب نے اپنے "لاپتہ" معاف کیجئے گا، لاعلم ہونے کا عذر پیش کیا۔ مجبوراً ان تین کروڑ کو لاپتہ کے کھاتے میں رکھنا پڑا۔
٭یہ احوال تو چابی نمبر ایک کا تھا۔ چابی نمبر دو یہ ہے کہ بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں شاعر نے کہا تھا عوہ بتانے کے قابل نہیں ہیں جنوبی پنجاب کے ایک کالم نویس محترم جو دو سال پہلے تک پی ٹی آئی کے انتہائی عقیدت مند اور شدید قسم کے ارادت مند تھے، گاہے گاہے ان کاموں کا ذکر ایک معاصر میں اپنے کالم میں کرتے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں، ان کا کالم چھپ کیسے جاتا ہے۔ بہرحال ان کا اپنا ذخیرہ الفاظ ہے، وہ ان کاموں کو "واردات" کا نام دیتے ہیں۔ ہم تو بہرحال یہ جسارت نہیں کر سکتے۔ ہم ان کے اس دوسری کیٹگری والے کاموں کو بہرحال کام ہی سمجھتے ہیں البتہ ایسے کہ احتراماً، بتانے کے قابل نہیں ہیں۔
٭ماضی میں لوگوں کی عادتیں خراب ہو گئی تھیں۔ سڑک ادھر ٹوٹتی تھی، ادھر بنانے والے آ جاتے تھے اور ہر روز نئی سے نئی سڑک الگ بنتی تھی۔ چنانچہ عادت تو خراب ہونی ہی تھی۔ اب عادات درست ہو رہی ہیں۔ جو سڑک ٹوٹ گئی، ٹوٹ گئی، اسی پر گزارا کرو اور نئی سڑک بننے بنانے کا تو ماجرا ہی خواب و خیال ہو گیا کہ اب لوگوں کی عادات درست ہو رہی ہیں اور دماغ بھی اور اس انہیں طرح یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ سڑکوں کا مسیحا کوئی نہیں، جو ٹوٹ گئی، سو ٹوٹ گئی۔
٭فی زمانہ کالم نویسوں کی ایک تعداد نے سیاست پر لکھنا ہی چھوڑ دیا ہے اور جو اب بھی لکھ رہے ہیں ان میں 90فیصد قصیدہ نگار ہیں۔ کچھ مہینوں سے انہوں نے، پتہ نہیں کیوں، قصیدے بھی تنقیدی رنگ میں لکھنا شروع کر دیے ہیں۔ مثلاً یوں قلم طراز ہوں گے کہ دیکھئے، عمران حکومت بہت سی توقعات پوری نہیں کر سکی لیکن بہرحال، ایک کام تو اس نے کیا، یہ کہ معیشت کو درست پٹڑی پر ڈال دیا۔ اتفاق پھر ایسا ہے کہ معیشت نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے اور پٹڑی تو اس نے ٹوپی تو نہیں پہنی، وہ خیر سے خود ہی سلیمانی ہے یعنی سلیمانی پٹڑی۔
٭درست ٹریک کا احوال مختصر یہ ہے کہ بجلی کے گردشی قرضے خیر سے سوا دو کھرب ہو گئے ہیں۔ ملک نے 72برسوں میں جتنے قرضے لئے، لگ بھگ اس کا آدھا قرضہ ان تین برسوں میں لے لیا گیا اور قرض لئے جانے کا عمل موسلا دھاری کے ساتھ جاری بھی ہے اور ساری بھی۔ بنی اسرائیل پر جو پہاڑ چڑھ آیا تھا اور ان کے سروں پر معلق ہو گیا تھا، وہ تو ٹل گیا لیکن یہ پہاڑ در پہاڑ یا تہہ در تہہ سلسلۃ الجبال جو عمران نے سر پر لاد دیا ہے، ٹلنے والا نہیں۔
٭جشن کا پھول کھلے بن مرجھا گیا لیکن عمران خاں کے ان گنت اقوال ذریں یاد آ رہے ہیں۔ تسبیح میں جتنے دالے ہیں، ان سے زیادہ یہ اقوال زریں ہیں۔ ایک یہ تھا کہ بس دو مہینے مشکل کے ہیں، پھر ہر طرف خوشحالی ہو گی اور یہ قول زریں مئی 2019ء میں صادر فرمایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے خوشحالی کے دور پہ دور کچھ ایسے چلے کہ بس کیا بتائیں، بتانے کے قابل نہیں ہیں۔