سخنور کا سہرا
وزیر اعظم نے گزشتہ روز حکومتی اجلاس میں ایک بار پھر حکم جاری فرمایا ہے کہ عوام کو ریلیف یقینی بنایا جائے۔ مطلب اس فرمان شاہی کا یہ ہے کہ عوام مہنگائی کی ایک اور قیامت خیز لہر کے لئے تیار رہیں۔ ویسے تو مہنگائی جب سے یہ انصاف سرکار آئی، کبھی تھمی ہی نہیں، چیزوں کے بھائو روزانہ اور ہفتہ روزہ بنیادوں پر بڑھ رہے ہیں لیکن مہنگائی کی لہر اس سے الگ۔ آتی ہے اور جب بھی آتی ہے، ایک دو روز پہلے وزیر اعظم اس کا بگل عوام کو ریلیف دو کا نعرہ لگا کر بجاتے ہیں۔ مہنگائی، کوئی شک نہیں کہ حکومت نہیں کرتی۔
حکومت تو صرف گرین سگنل دیتی ہے کہ کچھ کر لو نوجوانو اٹھتی جوانیاں ہیں جس کے بعد ترین و خسرو و رزاق دائود اور دیگر ان گنت معزز افراد اٹھتی جوانی کیش کرانے کی مہم پر نکل پڑتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک حتمی سگنل بھی اس گرین سگنل کے ساتھ ملفوف ہوتا ہے کہ گھبرانا نہیں، کوئی انکوائری ہوئی تو ہم سنبھال لیں گے یعنی دبا لیں گے۔ تازہ ترین انکشاف یہ ہوا ہے کہ کچھ پیاروں نے بھارت سے ادویات درآمد کرکے اربوں کا مال بنا لیا۔ فی الحال یہ خبر آ رہی ہے کہ حکومت میں کسی کو پتہ نہیں کہ اجازت کس نے دلوائی، کس نے درآمد کیں اور مال کس نے بنایا۔ کچھ لوگ ڈاکٹر ظفر مرزا کا نام لے رہے ہیں جو کہ غلط ہے اس لئے کہ ڈاکٹر ظفر مرزا بالکل معصوم ہیں، اس لئے کہ انہوں نے خود بتایا ہے کہ مجھے کچھ علم نہیں کہ کیا ہوا، ان کی یہ لاعلمی بھی ان کی معصومیت کی دلیل ہے۔
بڑ ھتی ہوئی مہنگائی پر ایک کم فہم اور درجہ دوئم کے سیاستدان نے فرمایا ہے کہ یہ حکومت کو لے ڈوبے گی۔ سیاسی علم کسی مجاز اتھارٹی سے پڑھا ہوتا اور زمینی و فضائی حقائق پر نظر کی ہوتی تو ایسا بیان ہرگز نہ دیتے۔ اس لئے کہ جب سب ایک پیج پر ہوں تو حکومت نہیں، عوام ڈوبا کرتے ہیں اور وہ ڈوب رہے ہیں، ماشاء اللہ اور مزید ڈوبیں گے انشاء اللہ۔
یادش بخیر، آج کل وہ روحانی نوحہ خواں نظر نہیں آتے جو نواز دور میں سیاہی کی دواتیں خالی کیا کرتے تھے اور ہزاروں گھنٹوں کے پروگرام اس نکتے پر کیا کرتے تھے کہ شریف برادران فرعون ہیں، 8روپے یونٹ کی بجلی عوام کو دے کر دونوں ہاتھوں سے انہیں لوٹ رہے ہیں؟ 8روپے کی بجلی کے ساتھ کچھ اور بھی یاد فرمائیے۔ انصافی حکمران آئے تو عالمی منڈی میں بجلی بنانے میں استعمال ہونے والا ہر ایندھن لگ بھگ پچاس فیصد سستا ہوگیا۔ ملاحظہ ہو: فرنس آئل کے نرخ70 فیصد گرے، کوئلہ50فیصد اور ایل این جی 76فیصد سستی ہوئی۔ یعنی مجموعی طور پر پچاس نہیں بلکہ اوسطاً60فیصد کمی ہوئی۔ 8روپے کی بجلی 4روپے کی نہیں ہو جانا چاہیے تھی۔ لیکن یہاں تو الٹا 24روپے سے 32روپے یونٹ ہوگئی۔ اب یہ اسلامی نوحہ خوان ازار بند قلم سے ڈالنے کے فضائل پر مقالات تحریر فرما رہے ہیں۔ شاید۔
نیب کا سہرا بہتوں نے پڑھا لیکن کسی کام نہ آیا، چودھری برادران نے پڑھا تو دنیا کو پتہ چل گیا عدیکھ اس طرح کہتے ہیں سخن ور سہراایسی سہرا بندی کی کہ نیب کی حنا بندی بھی ساتھ ہی کر دی۔ ناچار افراتفری میں اوپر تلے دو پریس ریلیز جاری کرنا پڑے کہ ارے ہم نے کب چودھری برادران کے خلاف انکوائری کا آرڈر دیا۔ پریس بے پرکی اڑا رہا ہے، ہم اور چودھری برادران کے خلاف انکواری کا آرڈر دیں؟ توبہ ہے۔ یہ تاب یہ مجال یہ طاقت کہاں مجھے
نیب تو خیر یاد کرے گا کہ کس سخنور اور سخن فہم گھرانے سے پالا پڑا تھا، لیکن شریف برادران اور ان کی ن لیگ والے بھی اپنے زخموں کو دیکھنے لگے ہیں جو پھر سے ہواوے اٹھے ہیں۔
چودھری برادران نے فرمایا کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کا ادارہ ہے، سیاسی انجینئرنگ کرتا ہے اور بلیک میلنگ سے کام لیتا ہے۔ یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی تو محب وطن قلمکار اور اسلامی نوحہ خواں حرکت میں آ گئے ہوتے۔ ویسے شکر رنجی کا کیا ہے۔ اب تک دور ہوگئی ہوگی یا نہیں ہوئی تو چار چھ دن میں دور ہو جائے گی جیسے جہانگیر ترین کی دور ہوگئی۔ خبر چھپی ہے کہ انہیں کلین چٹ مل گئی ہے۔ آئندہ سے انہیں جہانگیر ترین کے بجائے مسٹر کلین ترین کے نام سے پکارا جائے۔
ویسے انصاف کا تقاضا ہے کہ چودھری برادران نیب کا زیادہ شکوہ نہ کریں۔ یہ حکومت نہ بنتی تو چودھری برادران کو وفاق اور صوبے میں اتنی وزارتیں کہاں سے ملتیں۔ پنجاب میں تو ہر خاص و عام کو پتہ ہے کہ پرویز الٰہی ذرا اونچے منصب پر فائز ہیں۔ گلے کے بجائے انہیں سیاسی انجینئرنگ کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے عجیب مطالبہ کر دیا۔ کہا ہے کہ کورونا کے نام پر جو امداد باہر سے آئی، اربوں ڈالر کے حساب سے، اس کا حساب دو کہ کہاں خرچ کی۔ برسرزمین تو کوئی خرچ ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ ارے میاں بلاول۔ ان اربوں ڈالر سے سو گنا زیادہ تو قرضے ان دو سالوں میں حکومت نے لئے۔ اس کا حساب کیا ہو چکا جو اس ذرا سی رقم کا پوسٹ مارٹم کرنے نکل پڑے؟