سلیکٹڈ کہنے پر اتنا غصہ
سانحہ ساہیوال پر دھول جمنے لگی ہے اور دھول کی تازہ تہہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تقریر پر حکمران جماعت کے ردّعمل نے کامیابی سے جمائی۔ منی بجٹ پیش ہونے کے موقع پر اپنی تقریر میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کا خطاب دیا جس پر حکمران پارٹی کچھ زیادہ ہی غصے میں آ گئی۔ خاص طور سے وزیر اعظم کے مشیر تو پھٹ ہی پڑے۔ مشیر نے شہباز شریف کا "پروڈکشن آرڈر"منسوخ کرانے کی دھمکی دی اور کہا کہ اچھا ہے، وہ جیل ہی میں رہیں۔ ایسے ردّعمل پر لوگوں کو حیرت ہوئی، اس لیے کہ کچھ مہینے پہلے یہی خطاب وزیر اعظم کو قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو نے بھی دیا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں عمران خان کو ایک سے زیادہ بار "پرائم منسٹر سلیکٹ" کہا۔ تحریک انصاف اس وقت خاموش رہی، بعد میں بھی معمول کی جارحیت والے بیان دیئے لیکن اس بار تو کمال ہو گیا۔ آنے والے دنوں میں "مقصد" واضح ہو گیا۔ تمام چینلز اور میڈیا پر بحث کا "فوکل پوائنٹ" یہی بات بن گئی۔ سانحہ ساہیوال پر غوغا تھما تو نہیں، کم ضرور ہو گیا۔ کامیابیوں کے میدان میں جھنڈے گاڑنے والی جماعت نے ایک جھنڈا اور گاڑ دیا۔ ٭٭٭٭٭کہا جاتا ہے کہ ایسی حکمت ہائے عملی کے لیے وزیر اعظم ہائوس میں ہر روز اجلاس ہوتے ہیں۔ اہم رہنما باقی مسائل پر تو کم ہی غور کرتے ہیں، میڈیا کو قابو میں لانے، اپوزیشن کیخلاف نئی مہم کے تانے بانے زیادہ بنتے ہیں۔ دوروز پہلے ایک معروف صاحب قلم نے لکھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہی پروپیگنڈے کے زور پر ہے۔ بات جزوی طور پر ٹھیک ہے کہ پروپیگنڈے کی جو مہم اس نے چلائی، پوری صدی میں ایسی مہم کبھی دیکھنے میں آئی لیکن حکومت بننے کی یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ تعویذ گنڈے کے زور پر یہ حکومتی بنی لیکن اصل حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ حکومت نہ پروپیگنڈے کے زور پر بنی نہ تعویذ گنڈے کے زور پر، یہ ڈنڈے کے زور پر بنائی گئی۔ ڈنڈا چار سال گھوما، چوتھے سال تو بہت ہی زور سے گھوما، پھر "تبدیلی" آ گئی۔ کچھ احباب کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے غیر معمولی اشتعال کی وجہ یہ بھی ہے کہ حالیہ دنوں میں شہباز شریف کی "اصحاب ڈنڈا" سے قربتیں بڑھی ہیں اور کچھ نہ کچھ نتیجہ برآمد ہونے کی توقع ہے اور پی ٹی آئی اس سے خوش نہیں۔ واللہ اعلم۔ ٭٭٭٭٭اسی شور شرابے پر تبصرہ کرتے ہوئے عمران خان کے غائت درجہ عقیدت مند اینکر نے قدرے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ایک پروگرام میں فرمایا کہ خان صاحب خود تو خوب اہل اور خوب لائق ہیں لیکن ٹیم انہوں نے نا اہلوں کی اور نالائقوں کی اکٹھی کر رکھی ہے۔ یہ راز ان پر اب کھلا؟ جاننے والے تو بہت پہلے جان گئے تھے کہ علیاقت فہمیٔ بنی گالا معلوم شد٭٭٭٭٭سانحہ ساہیوال پر حکومت کی الٹ بازیوں کا مذاق تو سب نے اڑایا لیکن یہ کسی نے نہ دیکھا کہ قاتلوں کو بچانے میں کیسی شاندار کامیابی اس نے حاصل کی۔ اصل قاتلوں کی طرف کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا رہا جو آلہ کار بنے ہیں۔ پکڑے جائیں گے پھر وہ بھی چھوڑ دیئے جائیں گے۔ مقتول "ذیشان" کو دہشت گرد بنا کر معاملہ کی سنگینی کم کر دی گئی۔ ذیشان کے دہشت گرد ہونے کا واحد ثبوت حکومت نے جو پیش کیا ہے، یہ ہے کہ اس نے اپنی جو گاڑی خریدی تھی، وہ پہلے ایک دہشت گرد کے استعمال میں رہی۔ کیسا ناقابل معافی جرم ہے لیکن اب جو بات کھلی ہے، وہ یہ ہے کہ ذیشان نے جو گاڑی خریدی، وہ کبھی کسی دہشت گرد کے استعمال میں نہیں رہی۔ اس نے جس سے گاڑی خریدی اور پھر اس نے جس سے خریدی اور پھر اس سے بھی پہلے یہ گاڑی جس کے پاس تھی، ان تینوں میں سے کوئی بھی دہشت گرد تھانہ دہشت گردوں سے کوئی تعلق رکھتا تھا۔ دو اخبارات نے آگے پیچھے یہ کہانی چھاپ دی ہے اور گزشتہ رات ایک چینل نے بھی یہی خبر دی لیکن باقی میڈیا اسے "ایشو" نہیں بنا رہا۔ وجہ معلوم ہی ہے ایک تماشا مقتولین کے لواحقین کا انہیں ایوان صدر بلا کر بنایا گیا۔ دوروز ٹی وی بتاتے رہے کہ لواحقین کو صدر صاحب نے یاد کیا ہے۔ اخبارات میں بھی یہ خبر آئی۔ لواحقین کو ایوان صدر لے جایا گیا پھر کیا ہوا؟ صدر صاحب پروٹوکول کے مزے لینے کراچی تشریف لے گئے۔ پولیس لواحقین کو دن بھر گھماتی رہی اور شام کو گھر بھجوا دیا۔ ایوان صدر کے ترجمان نے کہا ہے کہ ملاقات کا وقت طے نہیں تھا۔ گویا لواحقین نے فراڈ کیا۔ کیوں نہ ان پر مقدمہ بنا کر جیل بھجوا دیا جائے؟ ٭٭٭٭٭جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق فرماتے ہیں کہ 5فروری کو یوم کشمیر پورے جوش و جذبے سے منایا جائے گا۔ یوم کشمیر ہی کیوں، یوم خلافت عثمانیہ بھی پورے جوش و جذبے سے منائیں، کون روکتا ہے۔ ویسے مشورہ علامہ اقبال کے الفاظ میں حضور یہ ہے کہ آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک۔ دیکھیے بطن گیتی سے پاک بھارت دوستی کا آفتاب تازہ طلوع ہو رہا ہے۔ کرتارپور کے بعد کھوکھرا پار بارڈر بھی کھولنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ ایک قوم کے جواب میں دودونی چار قدم آگے بڑھانے کا عزم ہے۔ پاسپورٹ ویزے کی شرطیں نرم ہو رہی ہیں۔ قائد انقلاب خود فرماتے ہیں کہ ان کے مداح جتنے پاکستان میں ہیں ان سے زیادہ بھارت میں ہیں۔ سراج الحق صاحب اس آفتاب تازہ کی استقبالی بزم سجائیں، کشمیر کی "پھوھڑی" بچھانے اور ایمان افروز ماتم سے کیا مل جائے گا۔ ٭٭٭٭٭شاہ محمود قریشی نے فرمایا ہے، فیصلہ ساز قوتوں کو زرداری، نواز قبول نہیں، فیصلہ ساز قوتوں سے کیا مراد ہے؟ بنی گالا تو شاید، بلکہ، یقینا نہیں۔