سچّے ثابت قدم لوگ
سچے لوگ اپنے سچ پر ثابت قدم رہتے ہیں۔ لگ بھگ چار سال پہلے ان سچے لوگوں نے قوم کو بتایا تھا کہ عمران خاں ریاست مدینہ بنانے والے ہیں۔ چار برسوں کے دوران پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہا کہ سر کے اوپر سے گزر گیا اور سچے لوگ بدستور ثابت قدم ہیں۔ سرشام کئی ٹی وی چینلز پر اور علی الصبح اخباری کالموں میں ہمیں یہ اطلاع دینا نہیں بھولتے کہ کرپٹ دور گزر گیا، اب ریاست مدینہ بن چکی ہے یا بن رہی ہے اور عمران خاں جیسا نیک پاک دیانت دار اور ایمانداری کا مجسمہ ملک کو درست سمت میں لے کر جا رہا ہے۔ خوش قسمتی سے میڈیا میں ان سچے لوگوں کی اکثریت ہے۔ قومی اسمبلی کی طرح سادہ اکثریت نہیں بلکہ دو تہائی سے بھی زیادہ والی۔ اعداد وشمار میں بات کریں تو لگ بھگ 90فیصد یا اس سے بھی زیادہ۔ آج کل یہ اکثریت قوم کو یہ یقین دلانے میں مصروف ہے کہ مشکل دور گزر گیا۔ معیشت پٹڑی پر چڑھ گئی، ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گیا۔ سچ پوچھیے تو ان کی یہ محنت بھلے ہی سخت قابل قدر ہے لیکن غیر ضروری ہے۔ اس لئے کہ قوم کو پہلے ہی یقین آ چکا ہے۔ قوم صدق دل سے مان چکی ہے کہ سخت دور گزر گیا اور اب خوشحالی کا سفر شروع ہو گیا۔ جو لوگ سچے نہیں تھے، حق سچ کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں تھے، وہ زیادہ تر اپنے گھروں میں بیٹھ چکے ہیں اس طرح حق کا بول بالا مزید بالا ہو گیا۔ قوم کا یہ یقین پختہ ہے۔ اس نے تو یہ بات بھی مان لی ہے کہ اس سال گندم کی بمپر کراپ ہوئی ہے۔ وہ اپنے اس یقین میں اتنی پختہ ہے کہ یہ بھی نہیں پوچھ رہی کہ بمپر کراپ ہوئی ہے تو گندم درآمد کیوں کی گئی۔ وہ یہ بھی نہیں پوچھ رہی کہ بمپر کراپ ہوئی ہے تو آٹا ہر روز مہنگا سے مہنگا کیوں ہوا جاتا ہے۔ معاملہ ریاست مدینہ کا ہے، ایسے سوالات کمزوری ایمان کی ذیل میں آتے ہیں اور ریاست مدینہ میں کون ہے، جو کمزوری ایمان کا داغ چہرے پر سجانا پسند کرے۔
٭سچے لوگ اکثریت اور غالب ترین اکثریت میں ضرور ہیں البتہ کچھ ان میں سے ایسے ہیں جو پہلے کی طرح زور و شور سے حق سچ کی گواہی نہیں دے رہے۔ نیک پاک صادق امین حکمرانوں کے بارے میں کبھی کبھی ایسے فقرات کہہ یا لکھ جاتے ہیں جو ان کی کمزوری ایمان کی دلالت کرتے ہیں لیکن غور سے دیکھیے، بین السطور مطلب اخذ کیجیے تو ان کے یہ ہلکے پھلکے تنقیدی فقرے بھی نیک پاک حکمرانوں کی "حمایت اور تائید" کا پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک حق سچ کے علمبردار نے حال میں لکھا کہ اب تو لگتا ہے کہ آج کے حکمرانوں اور ماضی کی حکومتوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ واقعی؟ کیا بجلی 8روپے یونٹ دینے والے حکمرانوں اور ان میں جو 32روپے کا یونٹ دے رہے ہیں اور اگلے ہفتوں میں نرخ اور بڑھا رہا ہے، کوئی فرق نہیں؟ جن کے دور میں آٹا 35روپے کلو تھا اور جن کے دور میں لگ بھگ 75روپے ہو چکا ہے اور مزید بڑھنے والا ہے ان میں واقعی کوئی فرق نہیں؟ میں پچھلے دور میں ہر ماہ دو ہزار روپے اپنی دوائوں پر خرچ کرتا تھا، آج انہی دوائوں پر نو ہزار لگتے ہیں۔ یہ نیک پاک تجزیہ کار 2اور 9میں کوئی فرق نہیں سمجھتے؟ واقعی؟ جب ریاست مدینہ نہیں تھی تو ہسپتالوں میں غریب مریضوں کو دوا مفت ملتی تھی۔ اب غریب آدمی ہسپتال جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ (نہ جانے ہیلتھ کارڈ کب ملیں گے) دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں؟ صدق شعاری کی بھی حد ہوتی ہے۔
٭راست باز، سچائی کے پیکر ان تجزیہ نگاروں میں سے کسی نے ریاست مدینہ کے والیوں سے نہیں پوچھا کہ سابق حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات کا کیا بنا؟ کوئی ثبوت ملا؟ نہیں ملا تو کیوں؟ اڑھائی برس میں کتنے سکینڈل آئے۔ بس والا اور درجن بھر ایسے ہی دوسرے اور ہر سکینڈل میں اربوں کھربوں کمائے گئے۔ راست تجزیہ نگار اور کالم نویس بہرحال اس بات پر داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پوری ثابت قدمی کے ساتھ ان کے بارے میں ایک لفظ نہیں لکھا عوفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
٭اب ماشاء اللہ بجٹ آ چکا، منظوری بھی چند دن کے فاصلے پر ہے۔ اسے دیکھنے والوں نے دیکھ لیا۔ ساری ایمنسٹی، ہر چھوٹ اور ساری رعایتیں دی گئی ہیں یعنی اس طبقے کے لئے جن کے پاس موجود دولت سنبھالنے نہیں سنبھلتی۔ یعنی پرواملیٹ بجٹ ہے۔ 22کروڑلوگوں کے لئے اس میں ہر شے پر ٹیکس کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ مہنگائی اور بھی سبک رفتار ہو گئی ہے اور ابھی آئی ایم ایف سے کئے جانے والے معاہدے کے تحت نزول بلا ہائے مزید ابھی ہونا ہے۔ لیکن ان چند دنوں کے اندر حق سچ کے پجاری قلمکاروں کے کم از کم دس تجزیے پڑھنے میں آ چکے ہیں اور کئی درجن ٹی وی تو دیکھے جا چکے ہیں جن میں اتنا اچھا، غریب نواز بجٹ بنانے پر عمران خاں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ پہلی بار معیشت پٹڑی پر چڑھ چکی ہے، اب ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ غریب کی آمدنی بڑھ گئی، روزگار کے مواقع پیدا ہو گئے۔ یہاں تک کہ گندم کی بمپر پیداوار بھی ہو گئی البتہ بمپر ہونے میں محض ذرا سی کسر رہ گئی جس کی ذمہ دار ظاہر ہے کہ سابق حکومت ہے۔