روڈ ٹو چائنا
لیجئے حضرات، بھادوں کے دو مہینے ختم ہوئے اور اب ساون شروع ہے۔ ماہرین موسمیات کا بتانا ہے کہ ساون ابھی چند دن اور رہے گا۔ کیا؟ نہیں آپ نے ٹھیک ہی پڑھا۔ اس بار ساون بعد میں آیا، بھادوں پہلے جو یکم سے ساٹھ (60) تاریخ تک رہا۔ میں اپنے علاقے، وسطی پنجاب کی بات کر رہا ہوں۔ بھادوں کے دونوں مہینے اوسطاً اس دن میں ایک بارش ہوتی رہی۔ باقی دنوں میں شکست خوردہ بادلوں کے ٹوٹے پھوٹے لشکر ادھر ادھر بھٹکتے رہے، برسے کم ہی۔ ادھر بھادوں کے ساٹھ دن پورے ہوئے، ادھر ساون شروع ہوا اور ہر روز کے حساب سے برکھا ہونے لگی۔ دو روز تو ایسے جھالے پڑے کہ لگا، طوفان نوح کا دیباچہ برس رہا ہے۔ لیکن خیر ہوئی، 20منٹ کی اندھا دھند موسلا دھاری کے بعد بادل چھٹ جاتے رہے۔ تبدیلی کی لپیٹ میں زمین ہی نہیں۔ بالائی فضائیں بھی ہیں چنانچہ مہینے اور ان کے دن اور ان کی ترتیب سب کا اتھل پتھل ہو گیا۔ ایک سیانے کا کہنا ہے، اس بار سردیاں اسی مہینے شروع ہو جائیں گی، یعنی ستمبر میں۔ کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی۔ اس سال گرمیاں دو برس کی اکٹھی ایک ہی برس میں آ گئیں۔ گرمی، تپش، لو، حبس کیا نہیں تھا جس نے اپنا جوش دوچند ہوکے نہیں دکھایا۔
٭تبدیلی یہ بھی ہے کہ جو کہتے تھے کہ اقتدار میں آ کر، پہلے سو دن میں ٹیکس دوگنا وصول کرکے دکھائوں گا، اب لگ بھگ اپنے دور حکومت کے سوا تین سال پورے ہونے کے بعد بتا رہے ہیں کہ لوگ ٹیکس دیتے ہی نہیں ہیں۔ فرمایا ٹیکس نہیں دیں گے تو جنّت کیسے ملے گی۔ جنت سے مراد وہ نکھرتا ابھرتا چمکتا دمکتا پاکستان ہے، جسے پہلے سو دنوں میں بنانے کا وعدہ ایک نہیں، صد بار بلکہ صد ہزار بار کیا گیا تھا۔ فرمایا ٹیکس تو دیتے نہیں اور خرابیاں گنتے ہیں، غریبوں کے سمندر میں ترقی نہیں ہو سکتی۔ مطلب کوئی ترقی ورقی نہیں۔ غریبوں کے سمندر کو غربت کا سمندر بھی کہا جا سکتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے فرمایا تھا، ترقی ہو رہی ہے۔ غریب خوشحال ہو رہے ہیں۔ یہ بھی کسی ممنوا نے ہم نوائی کی تھی کہ غریبوں کو اتنا ریلیف ہم نے ان تین برسوں میں دے ڈالا ہے کہ 73برس میں بھی کسی نے نہیں دیا تھا۔ اب کیا ہوا کہ جائو، ترقی ورقی بھول جائو کا اعلان ہو گیا، وہی اٹھا لو پانداں اپنا والا اعلان!
٭اور ہاں، ترقی چین ماڈل سے مشروط کر دی۔ یعنی ون پارٹی رول بلکہ ون مین رول۔ پاکستان کی سیاسی کیمسٹری ایسی ہے کہ ون مین رول جیسا خاں صاحب چاہتے ہیں، آنے میں بہت دن لگیں گے اور بہت سے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ حضرات، انتظار فرمائے، یہ پاپڑ کب بیلے جاتے ہیں، تب تک ترقی وغیرہ کو بھول جائیے اور ٹیکس دیتے جائیے۔
٭ویسے یہ ٹیکس کی بھی خوب رہی بلکہ صاحب نے خوب کہی۔ ان تین برسوں میں اتنے ٹیکس لگے ہیں کہ مغربی جرمنی میں بھی لوگ اتنے ٹیکس عمر بھر نہیں دیتے ہوں گے جتنے ہمارے عوام نے تین برس میں دے ڈالے۔ دے کیا ڈالے، حکمرانوں نے حلق پر انگوٹھا رکھ کر جیبوں سے نکال ڈالے۔ ہر بل پر ٹیکس، خریدی جانے والی ہر شے پر ٹیکس، لی جانے والی ہر سروس پر ٹیکس اور ایک نہیں۔ درجن بھر ٹیکس اور دن بدن ان کی بڑھتی شرح کے باوجود، ان کا یہ کہنا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ ابھی کل ہی دال مسور پر 27روپے فی کلو کا نیا ٹیکس لگا ہے اور سفید چنے پر 15روپے کا۔ بجلی ٹیکس لگ کر 8روپے سے 25روپے ہو گئی۔ آئے روز کے اضافے ٹیکس نہیں تو کیا ہیں۔ خیر، تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ قبلہ شیخ رشید داخلہ وزارت والے، ہفتہ کے روز خصوصی طیارے پر لاہور آئے۔ ان کا دورہ عمومی تھا، طیارہ خصوصی۔ گورنر وزرائے اعلیٰ تو خصوصی طیارے استعمال کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہی ہیں، اب وزیروں کو بھی یہ شاہی اڑن کھٹولے عطا ہو گئے تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ خوشحالی آ گئی۔
تین برس پہلے عالم کچھ اور تھا۔ آج کے وزیر اعظم تب فرمایا کرتے تھے، میں وی آئی پی سیٹ نہیں لوں گا، طیارے کی اکانومی کلاس میں سفر کروں گا۔ ایسا اس لئے تھا کہ تب غربت بہت تھی۔ کرپٹ وزیر اعظم نے معیشت تباہ کر دی تھی۔ موجودہ حکمران آئے تو پہلے دن ہی معجزہ ہو گیا، غربت ختم، خوشحالی آ گئی۔ تب سے کیا صدر، کیا وزیر اعظم، کیا گورنر، کیا وزرائے اعلیٰ او کیا وفاقی وزراء سب خصوصی طیاروں پر اڑ رہے ہیں۔ خوشحالی آ گئی ہے تو کیوں نہیں۔ پروٹوکول کے نظارے پہلے سے کہیں در کہیں بڑھ کر ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ سکندر اعظم کی سواری آ رہی ہے، پتہ چلتا ہے کہ نہیں، صوبائی وزیر کی ہے۔ وزیروں کی رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش پر کروڑوں سے سوا خرچے ہو رہا ہے۔ ان کے لئے ایک سے ایک نئی چم چماتی یہ لمبی کاریں آ رہی ہیں۔ نکھرتے ابھرتے پاکستان کا جشن ہے کہ ہر دن پر عید کا، ہر رات پر شب برات کا گمان ہے۔ کیوں نہ ہو، ماضی کے حکمرانوں نے، جیسا کہ عمران خاں صاحب نے کل ہی بتایا کہ لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کر دیا تھا۔ اب ہر طرف روزگاری کا سیلاب اینٹھا پھرتا ہے تو جشن کیوں نہ ہو!