Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Abdullah Tariq Sohail
  3. Raat Din Ki Mehnat Aur Mehengai

Raat Din Ki Mehnat Aur Mehengai

رات دن کی محنت اور مہنگائی

اتحادی جماعتوں کی وعدوں سے بھری جھولی میں ایک اور وعدے کا اضافہ ہو گیا، وعدے پورے کرنے کا وعدہ۔ اجلاس میں جب ان جماعتوں نے شکوہ کیا کہ ان سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا تو وزیر اعظم نے یہ اضافی وعدہ کیا، یعنی کہا کہ تمام وعدے پورے کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ اتحادی جماعتیں اس وعدے پر مطمئن ہوئیں یا نہیں، سنجیدہ ضرور ہو گئیں۔

اتحادی جماعتیں تو سنجیدہ ہو گئیں لیکن عوام نے جب یہ سنا کہ اگلے اڑھائی برس کارکردگی کے سال ہوں گے تو ان کا کیا ردعمل ہوا اب کسی کیمرہ رپورٹر نے اس کی رپورٹ ہی نہیں لی۔ ان سے پوچھا جاتا تو وہ رحم کی اپیل کرتے اور مزید کارکردگی سے پناہ مانگتے۔ اڑھائی سالہ کارکردگی نے پہلے ہی صحرا میں اتنے پھول اگا دیے ہیں کہ صحرا پھولوں کا سمندر بن گیا ہے۔ عوام سے ان کی خواہش پوچھی جائے تو وہ یہی التجا کریں گے کہ حضور، اڑھائی سالہ کارکردگی کو "رول بیک" کر دیجیے۔ شاید ہمارا بھلا ہو جائے۔

وزیر اعظم نے یہ خوش کن خبر بھی سنائی کہ ان کی حکومت مہنگائی ختم کرنے کے لئے دن رات کام کر رہی ہے۔ دن رات کی محنت سے مہنگائی تین گنا بڑھ گئی۔ صرف دن کو محنت کی ہوتی، رات کو آرام کیا ہوتا تو شاید مہنگائی صرف دو گنا بڑھتی، تین گنا نہ ہوتی۔ وزیر اعظم کے بہی خواہ بلکہ عوام کا خیر خواہ ہونے کے ناطے عرض ہے کہ صرف دن کی محنت کافی ہے، رات کو آرام کریں۔ بڑھی ہوئی مہنگائی تو کم ہونے سے رہی لیکن آپ کے رات کو آرام کرنے سے شاید یہ چار گنا ہونے سے بچ جائے۔

وزیر اعظم کی محنت کا ثبوت ان کی یہ عادت بھی ہے کہ وہ مہنگائی کی ہر نئی لہر کا خبر آتے ہی نوٹس لیتے ہیں اور نوٹس لینا رائیگاں نہیں جاتا۔ نوٹس لیتے ہی مہنگائی کی ایک اور تازہ دم لہر آ جاتی ہے۔ آخری نوٹس ملاحظہ کیا ہو گا، سبزیوں پر لیا تھا۔ نوٹس لیتے یہ سبزیاں سونے کے بھائو بکنے لگیں۔ ستم ظریف حضرات کہتے ہیں کہ وزیر اعظم مہنگائی کی رفتار سے مطمئن نہیں۔ نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز کے قائل ہیں چنانچہ رفتار اطمینان بخش بنانے کے لئے "نوٹس" لیتے ہیں۔ یعنی نوٹس سے مہمیز کا کام لیتے ہیں۔

اجلاس میں متحدہ کے خالد مقبول نے استفسار کیا کہ گیارہ سو ارب روپے کے کراچی پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا، اس کا کیا بنا۔ اعلان کے بعد سے تو سناٹا ہے۔ متحدہ والے بلکہ سب کراچی والے فی الحال سناٹے پر گزارا کریں۔ ویسے وزیر اعظم نے گیارہ سو ارب کے پیکیج کا اعلان کیا تھا وہ چاہتے تو گیارہ ہزار ارب کے پیکیج کا اعلان بھی کر سکتے تھے پھر آپ کیا کر لیتے؟

وزیر اعظم نے جلسے بھی شروع کر دیے ہیں۔ ایک سوات میں ہوا، اگلے روز حافظ آباد میں۔ سوات کا جلسہ دیکھا الیکشن سے پہلے اسی مقام پر عمران خان نے جس جلسے سے خطاب کیا، وہ عمران خاں کے حالیہ جلسے سے۔ اگر حد سے زیادہ احتیاط کرتے ہوئے لکھیں تو بھی دس گنا چھوٹا تھا۔ گویا نئے اور پرانے میں ایک اور دس کا فرق پڑ گیا۔ وزیر اعظم نے دونوں جلسوں میں زیادہ وقت نواز شریف کو دیا۔ نہیں چھوڑوں گا۔ این آر او نہیں دوں گا، قوم کا اربوں روپیہ لوٹ کر چوری کر کے لندن لے گیا وغیرہ۔ نواز شریف پر وزیر اعظم کا التفات کمال کا ہے۔ صبح انہی کے نام سے شروع کرتے ہیں، رات کا باب انہی کا نام لے کر بند کرتے ہیں۔ ایک فلمی گانے کا بول اور ایک شعر یاد آیا، آپ بھی ملاحظہ کیجیے گانا یہ ہے ع

تیری یاد نہ آئے، ایسا کوئی دن نہیں

اور شعر یوں ہے ؎

ہر شام کہ می خوابم، در یاد تومی خوابم

ہر صبح کہ بر خیزم، درعشق تو برخیزم

کیا لگائو ہے۔ ترقی ہو کہ تقریر، جلسہ ہو کہ اجلاس، بریفنگ ہو یا انٹرویو، ایک ہی نام برسروشام ہے۔

60کی دہائی میں پاک و ہند کے خوبصورت، دلچسپ اور معیاری جرائد کے نخلستان میں اردو ڈائجسٹ "عجوہ" کا نخل بن کر نکلا۔ تب سے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم کا نام اس پر مدیر منتظم کے طور چھپتا آ رہا ہے۔ اس مہینے بھی ہے۔ اگلے سے بطور مرحوم آئے گا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کتنی نسلوں نے یہ نام دیکھا اور عمر بھر دیکھتی رہیں۔ مرحوم نے ایک ایسے جریدے کی بنیاد رکھی جو بذات خود دبستان بن گیا۔ ڈاکٹر صاحب بہت بڑے صاحب علم تھے لیکن لکھنے لکھانے کا کام کم کیا، عملی اقدامات زیادہ کئے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور ان کے برادر خورد الطاف حسن قریشی کو جو اردو ڈائجسٹ کی سدا بہار روح رواں ہیں، طویل زندگی عطا فرمائے۔ اردو ڈائجسٹ ہی کا ایک جریدہ ہفت روزہ زندگی تھا جس نے ایک سال کی حقیقی عمر پائی۔ اس کے بعد برنگ نو، نام بدل بدل کر چھپتا رہا کہ بھٹو صاحب بار بار اس پر پابندی لگا دیتے تھے۔ اس جریدے کی رونق مختار حسن (مرحوم) سجاد میر اور چند دوسرے ہونہار ممتاز اخبار نویس تھے۔ لیکن سب سے زیادہ مقبولیت سعود ساحر نے پائی۔ ان رپورٹوں میں خبریں بھی ہوتی تھیں، ایسی خبریں جو اور کسی کے پاس نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے شگفتہ طنزیہ اسلوب نے قارئین کے بڑے حلقے کو ان کا گرویدہ بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے جس روز انتقال کیا، اسی روز سعود ساحر بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ہر دو کو اپنی رحمت سے نوازیں۔

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed