قاتلوں کی دنیا
قتل کی خبروں میں عام طور پر قاتل کی بے رحمی اور بے دردی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مثلاً فلاں نے بڑی بے رحمی سے فلاں کو قتل کر دیا۔ حالانکہ ہر قاتل بے رحم اور بے درد ہوتا ہے۔ رحم ہوتا تو قتل ہی کیوں کرتا۔ پھر بھی بعض قاتل باقی قاتلوں سے زیادہ بے رحم ہوتے ہیں لاہور میں گزشتہ روز ایک شخص نے ایک بچے کو بندوق سے قتل کر دیا۔ دوسری جماعت کے طالب علم بچے نے آپس کی لڑائی میں قاتل شفیق کے بچے کو مارا جس پر شفیق طیش میں آ گیا اور اسے پکڑ کر بری طرح مارا۔ جتنا اس بچے نے مارا تھا، اس سے زیادہ سزا اسے دے دی پھر بھی اس کا خیال تھا کہ ابھی انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے چنانچہ گھر گیا۔ بندوق اٹھائی اور زخمی بچے کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اندازہ کیجیے کس حد تک بے رحمی اس کے دل میں ہو گی۔ پورے میڈیا میں کسی کی توجہ اس بات پر نہیں ہے کہ پاکستان میں قتل اور پرتشدد جرائم نہ صرف بڑھ رہے ہیں بلکہ بڑی تیزی سے یہ دنیا کے بہت سے ممالک کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ نفسیاتی امراض نے لوگوں کو گھیر لیا ہے۔ برداشت نہیں رہی اور اوپر سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ قتل کا رجحان رکھنے والے ہر شخص کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ کل ہی کی خبر ہے کہ اسلام آباد کے کسی کلب میں دو دوستوں کا معمولی سی بات پر جھگڑا ہو گیا اور ایک نے جیب سے پستول نکالا اور اسے گولی مار کر وہیں ٹھنڈا کر دیا۔ اگر اس کے پاس آتشیں ہتھیار نہ ہوتا تو بات "گھسن مکی" تک رہتی اور دوسرے لوگ بیچ بچائو کرا دیتے لیکن ضیاء الحق کے دور سے پاکستان میں اسلحہ کی وہ بھر مار شروع ہوئی کہ پھر قتل سب سے آسان کام لگنے لگا۔ دنیا کے کئی ملکوں نے اسلحہ رکھنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر ایسا ہو جائے تو قتل کی وارداتوں میں کمی ہو جائے۔ یہاں ایک حدیث کا ذکر ضروری ہے جس میں منع کیا گیا ہے کہ کسی کی طرف لوہے کی چیز سے اشارہ بھی مت کرو۔ یعنی ہتھیار پاس ہو تو غصہ مہلک شکل اختیار کر سکتا ہے چنانچہ ہتھیاروں پر پابندی ہر لحاظ سے لازم ہے۔ سیاسی سماجی نفسیات ایک دو عشروں سے ایسے تبدیل ہوئی ہے کہ قتل کرنے کا اختیار مجمع نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ وہ بغیر بندوق کے لوگوں کو بے قصور مار ڈالتے ہیں اور چونکہ قاتلوں کو سزا نہیں ملتی۔ نفسیاتی طور پر قاتل انجام سے بے خوف بھی ہو جاتے ہیں اگر انہیں یہ پتہ چل جائے کہ جسے وہ قتل کرنا چاہتے ہیں اس کے خاندان میں بدلہ لینے کا دم خم نہیں تو پھر وہ قتل میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ مجمع کے انصاف کی مشہوری سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے سرعام تشدد سے قتل کی واردات سے شروع ہوئی تھی۔ اس کی ویڈیو دیکھ کر پورا ملک سکتے میں آ گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے "انصاف" دینے کا وعدہ کیا تھا اتنے برس گزر گئے نہ صرف یہ کہ قاتل پکڑے نہیں گئے بلکہ یہ بھی کہ جس پولیس افسر نے یہ قتل کرائے تھے۔ اسے اسلام آباد میں بہت اونچی پوسٹ پر ترقی دے دی گئی۔ اس کے بعد سے مجمع کے انصاف کے بے شمار واقعات ہوئے چند روز پہلے کراچی میں ایک کار سوار کا موٹر سائیکل سواروں سے جھگڑا ہو گیا(اوورٹیک کرنے پر ہوا ہو گا) کار سوار نے پہلے انہیں ٹکر مار کر گرایا پھر جب لوگ اکٹھے ہو گئے تو انہیں بتایا کہ یہ دونوں نوجوان ڈاکو ہیں۔ مجمع نے تفتیش غیر ضروری سمجھی اور مار مار کر ایک 15سالہ نوجوان کو ہلاک، دوسرے کو بری طرح زخمی کر دیا۔ جب یہ خبر ان لوگوں نے ٹی وی پر دیکھی ہو گی کہ مرنے والا بے قصور تھا تو کیا خیال ہے کتنوں کو شرمندگی ہوئی ہو گی؟ یقینا ایک کو بھی نہیں۔ تشویش کی بات ہے کہ پاکستان میں قتل کی وارداتیں بلحاظ آبادی بھارت اور امریکہ دونوں سے زیادہ ہے۔ بھارت میں اوسطاً سالانہ 32سے 35ہزار افراد قتل ہوتے ہیں اور پاکستان میں گیارہ سے بارہ ہزار۔ بھارت کی آبادی پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ اگر بھارت میں 32ہزار قتل ہوتے ہیں تو پاکستان میں پانچ چھ ہزار کی گنتی بھارت کے مساوی ہو گی۔ اس لحاظ سے پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں دو گنا زیادہ قتل ہوتے ہیں۔ امریکہ کی آبادی 32کروڑ ہے اور وہاں سالانہ 16ہزار لوگ قتل ہوتے ہیں یہاں بھی ہماری شرح زیادہ رہی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دہشت گردی اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات قتل کی اس اوسط تعداد میں شامل نہیں۔ ٭٭٭٭٭ دنیا میں سب سے زیادہ قاتل اقوام بعض افریقی ملکوں کی ہیں لیکن ان سے بھی زیادہ قتل کا رجحان آئی بیرین اقوام میں پایا جاتا ہے یعنی سپین اور پرتگال کی نسل کے لوگ۔ یہ لوگ اپنے اصل ملکوں میں بہت کم اور براعظم ہائے امریکہ میں بہت زیادہ ہیں۔ سپینی نسل کا سب سے بڑا ملک میکسیکو ہے جس کی آبادی تیرہ کروڑ ہے۔ یہاں سالانہ 29ہزار قتل ہوتے ہیں۔ ان میں قتل کی وہ وارداتیں بھی شامل ہیں جو ڈرگ مافیا کی باہمی لڑائی میں رونما ہوتی ہیں۔ سپین کی نسل کے لوگ خاص امریکہ میں بھی تین چار کروڑ ہیں اور جرائم میں یہ افریقی نژاد لوگوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں ستر فیصد جرائم افریقی اور سپینی نژاد لوگوں کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔ پرتگالی نسل کی سب سے زیادہ آبادی جنوبی امریکہ کے ملک برازیل میں ہے۔ اس ملک کی آبادی 21کروڑ ہے(یعنی پاکستان کے عین برابر) اور یہاں سالانہ 60ہزار لوگ قتل کیے جاتے ہیں۔ برازیل کے لوگ بے رحمی اور ہمدردی میں انوکھی مثالیں قائم کر چکے ہیں دارالحکومت "ریو"(Rio)بہت خوبصورت شہر ہے۔ لیکن یہاں لاکھوں بچے غربت کے باعث بے گھر ہیں۔ دن بھر محنت مزدوری کرتے اور راتوں کو فٹ پاتھوں پر سو جاتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں ریو کے لوگوں نے یہ کیا کہ ان بچوں سے شہر کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے چنانچہ ان کے قتل عام کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ سینکڑوں بچے رات کو سوتے میں فائرنگ یا کچل کر ہلاک کر دئیے گئے۔ اس کی تفصیل بہت لرزا دینے والی ہے۔ گزشتہ اولمپکس سے پہلے ریو کی پولیس نے بھی صفائی کے لیے بچہ مار مہم شروع کی جس پر اقوام متحدہ نے احتجاج بھی کیا۔ قتل کی وارداتوں میں جو 25ممالک سب سے آگے ہیں ان کی اکثریت آئی بیرین ممالک کی ہے۔ یعنی وہ ممالک جو وسطی امریکہ اور براعظم جنوبی امریکہ اور اس کے سمندری جزیروں پر قائم ہیں۔ پھر کچھ افریقی ممالک ہیں جن میں جنوبی افریقہ سر فہرست ہے۔ یہ سارے افریقہ میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مالدار ملک ہے لیکن ذرا سی بات پر یہاں خون کی ندیاں بہہ جاتی ہیں۔ پانچ چھ کروڑ کی اس آبادی میں ہر روز 52افراد قتل کیے جاتے ہیں اور سالانہ گنتی20، 19ہزار ہے۔ بالعموم ترقی یافتہ ممالک میں جرائم کی شرح کم ہے۔ برازیل ہی سے موازنہ کر لیجیے۔ امریکہ، کینیڈا، روس تمام مشرقی اور مغربی یورپ جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، الجزائر، مراکش، تیونس اور چین کی آبادی مل کر دنیا بھر کا ایک تہائی بنتی ہے۔ یعنی اڑھائی ارب سے بھی زیادہ۔ اس اٹھائی ارب کی آبادی میں جتنے قتل ہوتے ہیں اس سے زیادہ اکیلے برازیل میں ہوتے ہیں۔ پاکستان تیزی سے قتل اور پرتشدد واقعات میں آگے بڑھ رہا ہے۔ تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں کے سوچنے کی بات ہے کہ یہ "ترقی" کیسے روکی جائے۔ تشویش کی ایک بات یہ ہے کہ روز بروز ہوتے واقعات میں قتل ہونے والے بچوں اور عورتوں کی تعداد غیر متناسب انداز میں بڑھ رہی ہے۔ اس "ترقی" کو روکنا ضروری ہے لیکن پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ ماجرا مذکورہ حلقوں میں سے کسی کے نوٹس میں ہے بھی کہ نہیں۔ دنیا میں ہماری ریاست کے "فیل" ہونے کے دعوے یا الزام تراشے جاتے ہیں لیکن کم از کم قتل اور پر تشدد واقعات (جس کے نتیجے میں شکار زندہ تو بچ جاتا ہے لیکن زندگی بھر کے لیے زندہ درگور بھی ہو جاتا ہے) کے معاملے میں ریاست ضرور ناکام ہو چکی ہے۔ چند این جی اوز کمزور سا احتجاج کرتی رہتی ہیں لیکن طوطیوں کی اس بے پروا نقارخانے میں سنتا کون ہے!