پیپلزپارٹی سے حکومت کا نامہ و پیام
اشرافیہ پی ٹی آئی کا ماسک لگا کر حکومت کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی، جے یو آئی اور بعض دیگر چھوٹے گروپ اپوزیشن کر رہے ہیں اور اشرافیہ کی اپوزیشن نمبر ون منظر سے غائب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صحرائے حکومت اور دشت وحشت کے درمیانی سنگم پر کہیں گم صم گھڑی ہے۔ اپوزیشن حکومت کو رگید رہی ہے اور نیا تماشا یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت جواب میں لاپتہ مسلم لیگ کو رگڑ رہی ہے۔ بہرحال، مسلم لیگ نے جو خلا پیدا کردیا ہے، اسے پیپلزپارٹی نے پر کیا ہے۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ یہ ڈرامہ ہے لیکن ڈرامہ ہے تو بھی اصلی لگتا ہے یعنی سکرپٹ بہت مضبوط لکھا گیا ہے۔ ویسے جس طرح کے مکالمے آصف زرداری اور بلاول بول رہے ہیں، اس سے لگتا نہیں ہے کہ یہ فرمائشی ہیں۔ بلاول نے بہت "میچور" جملے کسے ہیں لیکن اصل ڈیزی کٹر بم زرداری نے چلائے۔ تین چار روز پہلے دیئے گئے ان کے بیانات کے ارتعاشات ابھی تک، ذرائع کے مطابق، خان صاحب کو بدمزہ کئے ہوئے ہیں حالانکہ زرداری صاحب کا ہدف کہیں اور تھا۔ سنا تو یہ بھی ہے کہ خان صاحب کا نامہ و پیام زرداری صاحب سے جاری ہے۔ وہ سینٹ کی چیئرمین شپ بھی پیپلزپارٹی کو دینے پر تیار ہیں۔ ان کی تحریک انصاف کے سرفہرست توپچی اگر ان دنوں پیپلزپارٹی کو نشانہ بنا رہے ہیں نہ ان کے حملوں کا جواب دے رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی نامہ و پیام ہے۔ خان صاحب چاہتے ہیں پیپلزپارٹی ان کا ساتھ دے تو وہ مل کر مسلم لیگ کو نابودگی کی منزل پر پہنچا دیں، اس مقصد کے لیے انہوں نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو ہر طرح کا یوٹرن لینے کی یقین دہانی بھی کروا دی ہے لیکن جواب میں زرداری صاحب کی طرف سے ہاں نہیں ہورہی۔ وہ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ کے بعد پھر ان کی باری ہوگی۔ یعنی ؎"نیب" سے کس کو رستگاری ہےآج وہ کل ہماری باری ہے٭٭٭٭٭مسلم لیگ کیوں صیغہ حاضر غائب بنی ہوئی ہے۔ اس بارے میں تجزیہ نگار حضرات الگ الگ خبر لائے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اندر ہی اندر کوئی ڈیل زیر طبع ہے۔ دیگر کہتے ہیں نہیں کوئی حکمت عملی ہے، وقت گزرنے کا انتظار ہے۔ حکمت عملی یا وقت گزرنے کے انتظار والی بات چاہے صحیح نہ ہو تب بھی وزن اسی میں لگتا ہے۔ اس لیے کہ ڈیل کی نفی تو کئی اشارے کر رہے ہیں۔ چار نئے ریفرنس آ رہے ہیں، ایک نئی جے آئی ٹی بن رہی ہے۔ صرف شریف فیملی نہیں، باقی تعلیمی لیڈروں کے بھی جلد گرفتار ہونے کی اطلاع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد 25 کے لگ بھگ ہے۔ خواجہ سعد رفیق کو گرفتار کرنے کی بات تو "اوپن" بھی ہو گئی۔ ایک صاحب قیصر امین ہیں جن کو وعدہ معاف گواہ بنانے کے لیے سرتوڑ محنت کی جا رہی ہے لیکن وہ ابھی تک انکاری ہیں۔ خواجہ صاحب کا کہنا ہے کہ نیب کی حراست میں ان پر تشدد ہورہا ہے اور وہ دوائیں انہیں زبردستی کھلائی جارہی ہے جو اعصاب توڑ دیتی ہیں اور جن پر باقی دنیا میں پابندی ہے۔ ٭٭٭٭٭وعدہ معاف گواہ بنانے کی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ مثلاً فواد حسن اور احد چیمہ وغیرہ کے حوالے سے لیکن غلط نکلیں۔ ان میں سے ایک کی تو پنجاب یونیورسٹی کے "معتوب" وائس چانسلر مجاہد کامران سے ملاقات بھی ہوئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نیب نے اس ملاقات کی تردید کرنے کی کوشش کی۔ یہ کہتے ہوئے کہ وہ تو کسی اور ریمانڈ پر ہیں۔ یعنی ریمانڈ الگ ہو تو ملاقات نہیں ہوسکتی۔ مجاہد کامران نے کچھ اور بھی کہا، نیب نے اس کی بھی تردید نہیں کی، تردید کی کوشش کی۔ کامران صاحب نے بتایا کہ نیب کے جیل خانے میں جتنے بھی شاور ہیں ان پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں، ان کے اس انکشاف پر لوگ چونکہ کہ نیب کے کارپردازان ایسے بازوق بھی ہیں۔ نیب نے تردید ان الفاظ میں جاری کی کہ کسی ٹوائلٹ میں کیمرے نہیں ہیں۔ بات تو ٹوائلٹ کی نہیں، شاور کی ہوئی تھیمجاہد کامران نے بتایا کہ لوگوں پر تشدد کر کے ان سے مرضی کے بیانات لیے جاتے ہیں۔ نیب نے اس کی تردید نہیں کی۔ تردید کی کوشش بھی نہیں کی۔ مزید انکشاف کیا کہ سرگودھا یونیورسٹی کے درویش صفت، ضعیف العمر وائس چانسلر اکرام چودھری کو ایک نوجوان افسر نے کہا کہ تمہارے منہ پر اتنے تھپڑ ماروں گا کہ چیخیں باہر تک سنائی دیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ نیب ایسے ہی سعادت مندوں سے بھرا پڑا ہے۔ ٭٭٭٭٭ملکی تاریخ میں پہلی بار پولیس کو سب مل گیا ہے اور شاید عوام کو بھی۔ ایک صاحبزادے میاں بعض حرکات وسکنات پر پکڑے گئے۔ اس سے پہلے کہ پولیس کارروائی آگے بڑھاتی صاحبزادے میاں نے پولیس کی ٹھکائی کردی، انہیں یرغمال بنا لیا اور پھر یہ جا، وہ جا۔ پولیس فریادی ہوئی، رپٹ درج کرائی اور پھر ہوا یہ کہ اہل انصاف نے الٹا پولیس والوں ہی کو دھر لیا، کیس بنایا اور اندر کردیا۔ میاں صاحبزادے ایک انصافی وزیر کے نور چشم نکلے۔ پولیس کو سبق یہ ملا کہ آئندہ کوئی حرکات کرے یا سکنات، کان منہ لپیٹ کر پاس سے گزر جائو۔ کیا پتہ میاں صاحبزادے پی ٹی آئی کے کسی وزیر سفیر کے لخت جگر ہوں۔ عوام کو یہ سبق ملا کہ کسی سے شکایت ہو تو تھانے کچہری جانے سے پہلے معلوم کرلیں کہ جس کے خلاف شکایت ہے کہیں پی ٹی آئی کا تو نہیں۔ ٭٭٭٭٭پرسوں کی اشاعت میں قرآنی آیت کا ایک حصہ حوالے کے طور پر نقل کیا۔ کمپوزنگ کے مسائل کی وجہ سے وہ ادھورا چھپا، یوں مفہوم بھی ادھورا رہ گیا۔ الفاظ تھے: "کیف یواری سوء ۃ اخیہ" یعنی (اسے بتائے کہ) اپنے بھائی کی نعش کو کس طرح دفن کرنا ہے۔ کمپوزنگ میں سوء ۃ کا لفظ سورۃ بن گیا اور اخیہ حذف ہو گیا۔ یہ وضاحت ضروری تھی۔