اپوزیشن کا رقص(بسمل)
گزشتہ روز وزیر اعظم کا اپنی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کچھ اومی نسOminousسا لگا۔ یعنی جس میں سے شگون تلاش کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ فرمایا 5سال پورے کر سکتا ہوں اور میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں۔ ان کے مخاطب کون تھے؟ اپوزیشن؟ عوام؟ کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ مخاطب وہ تھے جن کے چھومنتر سے الیکشن کی رات آر ٹی ایس خراب ہو جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ان کی اتحادی جماعت بی این پی شریک نہیں ہوئی اور دعوت نامہ مسترد کر دیا۔ یہ کہہ کر کہ وہ اتحاد سے الگ ہو چکی ہے۔ یعنی بی این پی کی اس بار علیحدگی سنجیدہ ہے۔ دو سال کی مدت میں وہ چار پانچ مرتبہ روٹھ چکی ہے اور ہر بار من جاتی رہی ہے۔ اس بار حتمی طور پر روٹھ گئی۔ اس کا شکوہ یہ ہے کہ جن وعدوں پر اسے اتحاد میں شامل کیا گیا تھا ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا گیا۔ عمران خاں نے خاص طور پر یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ جبری اغوا اور لاپتہ کئے گئے افراد کو بازیاب کرائیں گے لیکن ان کے دور میں لاپتہ بازیاب تو کیا ہوتے، الٹا مزید 15لاپتہ ہو گئے اور اب عمران خاں اس بارے میں بات بھی نہیں کرتے۔ بات نہ کرنا عمران خاں کی دانشمندی کی دلیل ہے۔ یہ وہ دانشمندی ہے جس سے ان کے پیشرو نواز شریف اور زرداری محروم رہے اور نتیجہ بھی بھگتا۔ لاپتہ ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ قدرت کے آگے کسی کا کیا زور چلتا ہے، کہاں چلتا ہے؟ ویسے جہاں تک چوائس کی بات ہے، وہ تو موجود ہے۔ اپنے بزدار صاحب ہیں ناں۔ پوری طرح ایماندار بھی۔ پوری طرح اہل اور قابل بھی۔ جنوبی پنجاب میں پھیلی ہوئی کہانیوں پر ہرگز مت جائیں۔
عشائیہ نما اجلاس میں ایک اور اتحادی جماعت قاف لیگ بھی شریک نہیں ہوئی۔ لیکن اس کی عدم شرکت اصولوں کا معاملہ تھا۔ قاف لیگ یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ سنا ہے عمران خاں نے قاف لیگ کے اصول کا احترام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ ماضی کی اپنی انکار والی پالیسی سے انگریزی حرف والا ٹرن لیتے ہوئے مونسیٰ الٰہی کو وزارت دینے پر تیار ہیں۔ اب تک کی تاخیر اور انکار کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خاں صاحب قاف لیگ کو اپنی اصول پرستی پر پکا کرنا چاہتے ہوں۔ ویسے فرض کیجیے، خاں صاحب آخری لمحات میں پھر ٹرن لے لیتے ہیں اور مونس الٰہی کو وزارت دینے سے انکار کر دیتے ہیں تو پھر کیا ہو گا؟ کچھ بھی نہیں ہو گا۔
ایک عجوبہ میڈیا کی حد تک کل دیکھنے میں آیا۔ اپوزیشن کی مشترکہ پریس کانفرنس کم و بیش تمام اخبارات نے سیکنڈ لیڈ یعنی صفحہ اول کی دوسری بڑی خبر کے طور پر چھاپی۔ شاید یہ بھی کچھ اومی نس سا معاملہ لگتا ہے ورنہ اب تک تو اپوزیشن کی خبر تلاش کرنا پڑتی تھی کہ کہاں چھپی ہے۔ کسی کونے کھدرے میں غیر نمایاں سی ڈبل کالم۔ اپوزیشن کے اکثر رہنمائوں کی پریس کانفرنسیں اور بیانات تو سرے سے غائب ہی ہوتے ہیں۔ سارا صفحہ پی ٹی آئی کے وزیروں مشیروں ترجمانوں کے بیانوں سے بھرا رہتا ہے۔ اب کیا ہوا۔ ہاں، کراچی کے ایک اخبار نے اس مشترکہ پریس کانفرنس کی خبر صفحہ اول کے لوئر ہاف میں ڈبل کالم ہی چھاپی۔ یعنی اپوزیشن کی اصل قدروقیمت صرف اس اخبار نے پہنچانی۔
جی ہاں، اپوزیشن کی اصل قدرو قیمت یا اس کے قد کا درست تخمینہ یہی ہے۔ ایک بے جا، نیم جاں، گم صم خاموشی، سہمی ہوئی سی اپوزیشن۔ اب تو خیر کورونا کا ڈر ہے لیکن جب یہ نہیں تھا، تب بھی اپوزیشن کسی کارنر میٹنگ کے انعقاد سے بھی ڈرتی رہی۔ ہاں بلاول بھٹو سندھ کی حد تک گاہے گاہے سرگرم رہے اور رہے شہباز شریف تو وہ بیان بھی دیتے ہیں تو اس طرح کہ جہاں پناہ۔ آپ کی فلاں پالیسی پر ذرا سی تنقید کی اجازت ہو تو کروں؟ البتہ کچھ دنوں، مطلب تین چار دنوں سے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے متعدد ارکان نے قدرے گرم تو نہیں البتہ نیم گرم قسم کے سے خطاب کئے ہیں جن پر جونیئر وزیر اطلاعات شبلی فراز خوب بھڑکے اور پریس کانفرنس میں فرمایا کہ ملک مسائل کا شکار ہے اور اپوزیشن رقص کر رہی ہے۔
اصولی طور پر رقص کرنا اسی کا حق ہے جس نے مسائل پیدا کئے۔ روم کو جس نے آگ لگائی، بانسری بھی اسی نے بجائی۔ اپوزیشن کو رقص کرنے کا کوئی حق نہیں ہے لیکن سوال ہے کہ اپوزیشن رقص کہاں کر رہی ہے؟ اپوزیشن کا کوئی لیڈر عمر بھر کے نااہل، کوئی سزا یافتہ، کوئی اس شرط پر ضمانت پر رہا کہ اچھے بچے بنے رہو ورنہ ضمانت منسوخ ہوتے دیر نہیں لگے گی، کوئی نیب کی جیل میں، کسی پر ہیروئن برآمدگی کا مقدمہ، کسی پر کوئی انکوائری، ہر کسی کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے۔ جو بولتا ہے، اگلے دن نیب کی حوالات میں ہوتا ہے جس کے چیئرمین کے حوالے سے رانا ثناء اللہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ان کی صرف ایک ویڈیو حکومت نے لیک کی ہے، چار ایسی گرما گرم ویڈیوز اور بھی ہیں اور رانا صاحب کے اس بیان کی تردید حکومت نے کی نہ چیئرمین نیب نے، دونوں سر سے پائوں تک خاموش ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن اگر کوئی رقص کر رہی ہے تو وہ رقص بسمل ہی ہو گا، کوئی کتھا کلی تو نہیں ہو گا۔
مرد مومن مرد حق کے فرزند دلبنداعجاز الحق لگتا ہے سیاست سے باہر ہو گئے۔ سننے میں آتے ہیں نہ دیکھنے میں حتیٰ کہ اخبارات میں ان کا بیان چھپے بھی مدتیں ہو گئیں۔ ہاں کل ایک سنگل کالمی بیان کسی اخبار کے اندرونی صفحے پر نظر پڑا تو معلوم ہوا کہ موجود ہیں اور بخیریت ہیں۔ بیان میں انہوں نے ایک وفاقی وزیر سے سوال کیا ہے کہ کس نے 25ڈالر فی بیرل پر تیل درآمد کیا اور پھر سٹاک کر لیا۔ وزیر تو نہیں بتائیں گے لیکن دوسرے حلقوں نے بتا دیا ہے کہ وہ کون تھا۔ ایک بہت ہی لاڈلا۔