متانت کے انبار
اب تو یہ بات معروف و مشہور اور متواتر ہو گئی کہ ملک میں ایشو کوئی بھی ہو، وزیروں مشیروں کے اجلاس میں ایک ہی حکم جاری ہوتا ہے کہ اپوزیشن کو ٹف ٹائم دو۔ اب وزیر بچارے حیران ہوتے ہیں کہ نئی نئی باتیں کہاں سے لائیں۔ تین چار دن پہلے ایک قومی اخبار میں چھپنے والی ایک دو کالمی خبر کو اس ضمن میں نمائندہ خبر کہا جا سکتا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں بہت سے وزیروں نے حالات حاضرہ کی سنگینی پر توجہ دلائی۔ کسی نے کہا کہ مہنگائی کا سیلاب آ گیا ہے جس سے ہماری پوزیشن عوام میں بہت خراب ہو رہی ہے۔ کسی نے کہا کہ امن و امان کی صورتحات تشویشناک ہے اور جرائم میں ازحد اضافہ ہو گیا ہے۔ کسی نے کہا کہ زراعت تباہ ہو رہی ہے، کسان بہت پریشان اور مایوس ہیں۔ اسی طرح اوروں نے بھی الگ الگ دکھوں کے دکھڑے روئے۔ خبر کے مطابق آخر میں وزیر اعظم نے لب کشائی فرمائی اور حکم جاری کیا کہ اپوزیشن لیڈروں اور ارکان اسمبلی کو اسمبلی کے باہر اور اندر ٹف ٹائم دیا جائے۔ طویل بحث، ان گفت سوالات اور تحفظات کا جواب اور حل، وہ بھی کافی اور شافی، وزیر اعظم نے محض ایک فقرے سے دے دیا اور جملہ وزیروں کی اطمینان بخش حد تک تسلی کر دی۔ اسے کہتے ہیں سو سنار کی، ایک لوہار کی اور ایک پرانے اشتہار کا حوالہ دیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ بو ھتے پانی دا اکّو حل۔ نواب ٹیوب ویل۔ ہزارہ برادری کے احتجاج کے بعد بھی یو ٹیوبروں کے اجلاس کی صدارت فرمائی اور انہیں اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کی ہدایت کی۔ اسے کہتے ہیں لیڈر، اور یہ ہوتا ہے وژن۔
خبر کے مطابق اسی اجلاس میں وزیر اعظم نے میڈیا کے رویے پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا اور شکوہ کی کہ وہ منفی رپورٹنگ کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ تاثر کیسے لیا۔ میڈیا تو جب سے مثبت رپورٹنگ کر رہا ہے جب سے ایسا کرنے کا حکم آیا تھا۔ حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ بس چھ ماہ کے لئے مثبت رپورٹنگ کرو، پھر دیکھو پاکستان کیسے اوپر جاتا ہے۔ چھ ماہ ختم ہوئے کتنے ہی چھ چھ ماہ گزر گئے، میڈیا ابھی تک مثبت کے کھونٹے سے بندھا ہے۔ کتنے سکینڈل ہر روز سر اٹھاتے ہیں "مثبت" کے گنڈاسے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ بلین ٹری سونامی سے لے کرآٹا تک ایک گرس کے قریب۔ سکینڈل جملہ ارتقائی مراحل طے کر چکے، میڈیا پر کوئی پروگرام دھواں داری کرتا ہوا نہیں پایا گیا۔ اخبارات نے بھی چیختی چنگھاڑی سرخیاں لگانے سے کامل پرہیز کیا، زیادہ سے زیادہ کیا تو یہی کہ سکینڈل کی خبر کسی کے "الزامی بیان" کی شکل میں سنگل ڈال دی۔ میگا سکینڈل بہرحال ابھی سنچری نہیں کر سکے، منی سکینڈل البتہ یوں نمودار ہو رہے ہیں جیسے برسات میں کھمبیاں۔ ایک میٹرو بس کو ہی دیکھ لیں۔ پلاسٹک کی "ناقابل کرپشن" ٹکٹ بند کر کے کاغذی ٹکٹ، وہ بھی کچے جاری کئے جا رہے ہیں۔ ایک ننتھی منی سی خبر، بس ایک ہی بار چھپی کہ مہینے بھر میں 15کروڑ کی نیک کمائی نیک لوگوں کی جیب میں جا رہی ہے۔ اب اس سے بڑھ کر مثبت رپورٹنگ اور کیا ہو گی صاحب۔
میٹرو بس سے یاد آیا، ایک اورنج لائن بھی بنی ہے، شہر کے بیچوں بیچ میلوں لمبی۔ پچھلے کرپٹ حکمرانوں نے بنائی تھی۔ ایک طویل پل کی صورت کچھ دنوں سے اس پل کے نیچے میلوں لمبی قطار کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کی لگی ہے۔ بالکل اسی کے ساتھ ساتھ، اسی کے ساتھ ساتھ مڑتی جاتی ہے۔ ایک صاحب کا اتفاق سے پہلی بار اس طرف گزر ہوا تو حیرت سے کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور پھر خود کلامی کے انداز میں بولے، ارے یہ کیا ہے۔ پاس سے گزرتے ایک راہگیر نے ترنت جواب دیا، میاں کچھ نہیں۔ اوپر پرانا پاکستان ہے، اس کے نیچے نیا پاکستان۔
لاہور میں ہر طرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر شہر کے اخبارات اپنے میٹرو صفحات پر عجیب عجیب سرخیاں لگا رہے ہیں۔ ایک واقف کار ملنے آئے تو یہ سرخیاں پڑھ کر حکومت کے بارے میں کچھ زائد از ضرورت نازیبا کلمات ارشاد فرما دیے۔ عرض کیا، حضور آپ سنجیدہ آدمی ہیں۔ لیکن آپ کا کلام بلیغ اور فصیح ہونے کے باوجود متانت سے گرا ہوا ہے۔ بھڑک کر بولے "تو شہر میں جو متانت کے انبار انہوں نے کھڑے کر دیے ہیں، ان پر اور کیا کہوں۔ بات ذرا سی ہے۔ یعنی گنگا اب الٹا بہائو بہنے لگی ہے۔ حکمران جنوبی پنجاب کو شمالی پنجاب بنانے میں لگے ہوئے تھے، صادق امین لوگوں کی حکومت آئی تو شمالی پنجاب کو جنوبی اور لاہور کو تونسہ بنانے میں جت گئی۔
سانحہ مچھ پر وزیر اعظم بہت غصے میں ہیں۔ تعزیت کے لئے میتیں دفنائے جانے کی شرط منظورکرانے کے بعد وہاں پہنچے تو اپنی برہمی کا اظہار کھل کر کیا۔ فرمایا، اپوزیشن والے بے شرم لوگ ہیں، سارے این آر او لینے کے لئے اکٹھا ہو گئے ہیں، یہ سب چور ڈاکو اور لٹیرے ہیں۔ بالکل این آر او نہیں دوں گا۔ سانحہ مچھ بہت دردناک سانحہ تھا، وزیر اعظم کی برہمی بالکل برحق ہے۔
پورے ملک میں بجلی کا بریک ڈائون ہوا۔ اگلے دن جا کر ٹھیک ہوا۔ چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ یہ کیا ہوا۔ بھلا ہو شبلی فراز کا کہ بیان جاری کر کے بتا دیا کہ اس کی ذمہ دار پچھلی حکومت تھی۔ پچھلی حکومت فی الواقع خود غرض تھی۔ اپنا دور تو بنا بریک ڈائون کے گزار دیا، آنے والے معصوم لوگوں کے بارے میں کچھ نہ سوچا کہ بے چارے حکومت میں آکے کیا کریں گے۔ ایک معاصر کی رپورٹ ہے کہ اڑھائی برس میں بجلی کے نظام کی دیکھ بھال پر ذرا سی توجہ بھی نہیں دی گئی۔ پچھلے دور میں دیکھ بھال ہوتی رہتی تھی۔ بھئی اڑھائی سال تو "کسی کو نہ چھوڑوں گا" میں گزر گئے، یہ ذمہ داری بہرحال پچھلی حکومت ہی کی تھی کہ آنے والے دور کا بندوبست بھی کر جاتی۔