ماشاء اللہ
وزیراعظم نے ایک مبارکباد دی۔ پیغام ٹوئٹ فرمایا جس میں عوام کو اطلاع دی گئی کہ ماشاء اللہ، چینی 81 روپے کلو میں مل رہی ہے۔ ماشاء اللہ۔
اور ماشاء اللہ کہنے کے محل تو اور بھی بے شمار ہیں۔ جیسے ماشاء اللہ ادرک نو سو روپے کلو ہوگئی، ماشاء اللہ گھی آٹھ روپے کلو اور مہنگا ہوگیا، ماشاء اللہ۔ بجلی اس ہفتے 50 پیسے یونٹ اور مہنگی ہونے والی ہے اور ماشاء اللہ۔ انڈے 220 روپے درجن ہو گئے۔ غریب انڈے نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اس کی قدروقیمت اتنی بڑھ جائے گی۔ ماشاء اللہ چشم بد دور ابھی تو جنوری آتے آتے اس نے اڑھائی سو کا ہندسہ بھی ٹاپ لینا ہے۔ ثم ماشاء اللہ۔
اور ماشاء اللہ کون سی شے ایسی ہے جس کی قیمت میں دن دوگنا، رات چوگنا اضافہ نہ ہوتا ہو اور یہ جو ممکنہ شماریات بحق سرکار جو اس قسم کی رپورٹ جاری کرتی ہے کہ اس ہفتے فلاں شے اور فلاں شے اعشاریہ اٹھارہ فیصد سستی ہو گئی اور یوں ماشاء اللہ مہنگائی کم ہورہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں شے جو پچھلے سے پچھلے ہفتے سو روپے کی تھی اور اس کے بعد پچھلے ہفتے ڈیڑھ سو کی ہو گئی تھی، اس ہفتے سستی ہو کر محض ایک سو انچاس روپے 76 پیسے کی ہو گئی ہے۔ ماشاء اللہ۔ اور صرف مہنگائی ہوتی تو عذاب کی ایک تہہ ہوتی۔ یہاں تو ماشاء اللہ ماجرا یہ ہے کہ خان صاحب نے آتے ہی گنڈاسہ ہاتھ میں پکڑا اوربجلی دوگنی مہنگی کردی۔ ساتھ ہی گیس بھی اور پھر تیل بھی۔ یوں پچاس ہزار روپے تنخواہ والے کو پتہ چلا کہ اس کی تنخواہ میں دس ہزار کی کٹوتی ایک ہی جھٹکے میں کردی۔ اب چالیس ہزار میں اسے چار پانچ گنا مہنگی دوائیں بھی خریدنا ہیں۔ دوگنی مہنگی دال بھی لینی ہے اور فلاں شے بھی اور فلاں شے بھی۔ اب ماشاء اللہ وہ رات بھر کاغذ پنسل لے کر بیٹھا رہتا ہے۔ یہ حساب لگانے کہ کون سی خریدے اور کون سی نہ خریدے اور جو خریدے تو پہلے سے آدھی، اس سے بھی کم۔ ماشاء اللہ ایک نئی مصروفیت مل گئی۔
اور یوں تو ان کا ماجرا ہے جن کو ابھی تنخواہ مل رہی ہے، وہ لاکھوں جن کی تنخواہ بھی بند ہو گئی جن کا روزگار چھن گیا، جن کی جینے کی راہ ہی گم ہو گئی، ان کا تو ذکر ہی کیا۔ دو برسوں میں کتنے ملین افراد بیروزگار ہوئے، یہ سوال پوچھا جائے تو یار لوگ بھڑک اٹھتے ہیں، منہ سے گالیوں کے آتشیں گلاب برسنے لگے ہیں۔ ماشاء اللہ۔
بہرحال، خان صاحب اپنے اس فرمودے پر بدستور قائم ہیں کہ ان کی پہلی ترجیح عوام کو ریلیف دینا ہے۔ یہ آپ کی سمجھ بوجھ ہے کہ عوام سے ان کی کیا مراد ہے۔ شاید یہ کوئی اور ہی طبقہ ہے اور اس شاید کی تصدیق پچھلے روز دو ہم وزن، ہم رنگ اور ہم آہنگ وزیروں یعنی محترم شبلی فراز اور محترم علی گنڈا پور صاحب کی مشترکہ پریس کانفرنس سے ہو جاتی ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوام نہیں جاتے۔ عوام نہیں جاتے تو پھر وہ کون ہیں جو بہت بڑی تعداد میں ان جلسوں میں نظر آتے ہیں؟ انہیں کیا نام دیا جائے، اگر وہ عوام نہیں ہیں توکون ہیں؟ خان صاحب اور ہم وزن وزیروں کے حساب سے لگتا ہے عوام ان لوگوں کا نام ہے جو پوش ایریاز اور اس جیسی جنت نظیر، بہار بداماں، خزاں ناآشنا سوسائٹیوں میں رہتے ہیں جن کے ماتھے پر یہ غیر مرئی تحریر لکھی ہوتی کہ اگر فردوس بر روئے زمیں است، ہمیں است ہمیں است وہمیں است۔ اگر عوام سے مراد بہی قدسی مخلوق ہے تو پھر خان صاحب کی بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے اور ہم رنگ وہم وزن وزرائے کرام کا ارشاد بھی قابل فہم ہو جاتا ہے۔
اور یہ مت سمجھئے کہ حکومت کی واحد مصروفیت ریلیف کا گنڈاسہ چلانا ہی ہے۔ وہ گاہے گاہے کابینہ میں ردوبدل بھی کرتی رہتی ہے۔ تازہ ترین تبدیلی یہ ہوئی کہ وہ مرد ہنرمند جو ریلوے میں 121 حادثات کا سہرا سجائے ہوئے تھے (ان حادثات میں سینکڑوں لوگ مرے جن کو عوام اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ان کے مطابق عوام تو انہیں کہا جاتا ہے جو ہوائی جہازوں میں سفر کرتے ہیں، ریل کے چھکڑوں میں نہیں) انہیں اب وزیر داخلہ بنا دیا گیا ہے۔ ماضی میں ان کا سیاسی کردار تاریخ میں زریں تو ہیں، البتہ احمر میں الفاظ میں ضرور لکھا جائے گا۔ شاید اسی پس منظر میں یہ سمجھا گیا کہ جو اپوزیشن کی دن بدن منہ زور ہوتی ہوئی تحریک پر قابو پانے کے لیے بہی مرد ہنر مند کام آئے گا۔ واللہ اعلم اور اگر یہ گمان درست ہے تو ماشاء اللہ رنگ دے بسنتی چولا کی امید رکھئے۔ اور ماشاء اللہ جو بزرگ ازحد کہنہ وسال خوردہ اس سے پہلے وزیر داخلہ تھے انہیں بیک بینی و دوگوش وزیر منشیات بنا دیا گیا ہے۔ دیکھئے، مرد ہنرمند اپوزیشن کی تحریک سے نٹنے کے لیے اپنی قلقل قلقل کرتی مینا سے کون سی مئے حوادث قطرہ قطرہ یا موسلادھار ٹپکاتے ہیں اور یہ کہ مذکورہ ثانی بزرگوار خوردہ رانا ثناء اللہ سے منشیات کا ٹوکرا برآمد کرتے ہیں یا شاہد خاقان عباسی سے۔ بہرحال، دونوں بزرگان خورد دکلاں صاحبان کرامات ہیں۔ ماشاء اللہ۔
ہم رنگ و ہم وزن پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن پر الزام لگایا گیا کہ ان کے بھارتی ایجنسیوں سے رابطے ہیں۔ ماشاء اللہ۔ دونوں مردان صادق و امین ہیں، سچ ہی کہتے ہوں گے۔ یاد آیا۔ دو سال پہلے صادق و امین اور محب وطن حلقوں نے یہ دل ہلا دینے والا انکشاف کیا تھا کہ نوازشریف کی ملوں میں چار ہزار بھارتی ایجنٹ کام کر رہے ہیں۔ محب وطن حکومت سے استفسار ہے کہ وہ ان بھارتی ایجنٹوں کے بارے میں قوم کو اپ ڈیٹ کرے۔ پکڑے گئے یا فرار ہو گئے؟ فرار ہو گئے تو کیسے، کیا ابھی نندن کے ساتھ ہی چلے گئے؟ پکڑے گئے تو مزید کیا کارروائی ہوئی اور ہاں، وہ سینکڑوں ارب روپے واپس آئے کہ نہیں جو نوازشریف نے بھارت بھیجے تھے؟
حکومت نے کہا ہے کہ اپوزیشن جھوٹ بول رہی ہے کہ حکمران حضرات کی طرف سے ان کے ساتھ رابطے کئے جا رہے ہیں۔ ایسا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ بجا فرمایا۔ اب یہ بتا دیجئے کہ شہبازشریف کے ریمانڈ کے واحد توسیعی روز کس نے ان سے خفیہ ملاقات کی تھی؟ خاصی طویل ملاقات تھی۔ چلئے، ان درجنوں ٹیلی فون رابطوں کی بات تو کرتے ہی نہیں جو نہ جائے، کس کس نے کس کس سے کئے تھے۔