ملک اوپر اٹھے چلا جارہا ہے
وزیراعظم نے بجا ارشاد فرمایا کہ شفاف الیکشن کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم ضروری ہے لیکن وہ جزوی اختلاف کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں تو عرض کریں کہ ان کا یہ کہنا درست نہیں کہ یہ واحد طریقہ ہے۔ شفاف الیکشن اس کے بغیر بھی ہو سکتے ہیں اور ہم یہ 2018ء کے انتخابات میں اس کا ملک گیر تجربہ کامیابی سے کر چکے ہیں۔ ایسے شفاف انتخابات کہ دنیا بھر میں دھوم مچ گئی اور گاہے گاہے اب بھی مچتی رہتی ہے۔ بعدازاں آزادکشمیر اور مزید بعدازاں سیالکوٹ کی صوبائی انتخابات میں بھی شفافیت اس مشین کے بغیر کامیابی سے حاصل کی گئی۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ ع
مگر اس میں لگتی ہے "کھیچل" زیادہ
کھیچل پنجابی کا لفظ ہے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ بہت سے جگاڑ اکٹھاکئے جائیں تو حاصل جمع کھیچل کہلاتا ہے۔ الیکٹرانک مشینوں سے یہ کھیچل برائے نام رہ جائے گی۔ بس ایک کمانڈ دیں گے اور شفافیت کا ڈھیر لگ جائے گا۔ پھر اس کی دوسری افادیت یہ ہے کہ مشینوں کی خریداری پر 165 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ اندازہ لگائیں کہ کتنوں کا بھلا ہوگا۔
٭وزیراعظم نے یہ بھی درست اور بجا فرمایا کہ ماضی میں ملک کا انحصار قرضوں پر تھا جس سے معیشت تباہ ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ اب ملک درست راستے پر چل نکلا ہے اور اوپر اٹھ رہا ہے۔ ماضی میں قرضوں کا انحصار تھا، اب قرضوں کا پہاڑ ہے۔ انحصار اور پہاڑ کا فرق سمجھ لیا جائے تو ملکے اوپر اٹھنے کا منظر دیکھنے اور سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
٭پنجاب میں ایک وزیر کے اضافے سے کابینہ کی تعداد 37 ہو گئی جو وفاق کے 55 وزیروں کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ امید ہے وزیراعلیٰ اس پر توجہ فرمائیں گے تاکہ پنجاب کو اوپر اٹھانے کی رفتار وفاق سے ہم آہنگ ہو جائے۔ وفاق میں 55 وزیروں مشیروں کے علاوہ 39 عدد پارلیمانی سیکرٹری بھی ہیں جن کی حیثیت وزیر جیسے تو نہیں ہوتی پر زیادہ کم بھی نہیں ہوتی۔ یہ پاکستان کا اعزاز ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی کابینہ رکھنے والا ملک بن گیا ہے۔ ماضی میں خان صاحب فرمایا کرتے تھے وزیراعظم بن کر 17 سے زیادہ وزیر نہیں رکھوں گا۔ تب خان صاحب کو غالباً علم نہیں تھا کہ محض 17 وزیروں سے ملک اوپر نہیں اٹھ سکتا۔ اوپر اٹھانے کے لیے زیادہ وزیر رکھنا پڑتے ہیں وہی بات کہ جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی پکوان میٹھا بنے گا۔ جتنے زیادہ وزیر ہوں گے ملک تنا ہی زیادہ اوپر اٹھے گا، سو اٹھ رہا ہے۔ ہر ہفتے دو ہفتے بعد ایک وزیر کا اضافہ ہورہا ہے۔ امید ہے سو پورے ہوتے ہی سو فیصد اٹھنے کی راہ بھی زیادہ ہموار ہو جائے گی۔
٭سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مطالبہ کیا ہے کہ صدر وزیراعظم کے جہازوں کی صرف مرمت پر بارہ ارب روپے خرچ کر دیئے گئے اس پر بحث کرائی جائے۔ صرف مرمت پر بارہ ارب روپے کا فقرہ بتا رہا ہے کہ الفاظ کی نشست ٹھیک نہیں۔ صرف کا لفظ مرمت سے پہلے آیا ہے، اسے بارہ ارب سے پہلے رکھا جائے تو معاملہ ٹھیک ہو جائے گا یعنی فقرہ یوں پڑھیے کہ صدر وزیراعظم کے جہازوں کی مرمت پر صرف بارہ ارب خرچ ہوئے ہیں۔ نیز بحث میں اس بات پر بھی داد دی جائے کہ صدر اور وزیراعظم نے نئے جہاز خریدنے کا نہیں سوچا، صرف مرمت کرائی اور مرمت پر صرف بارہ ارب خرچ ہوئے۔ یہ تو مرحبا کہنے کا مقام ہے نہ کہ اعتراض اٹھانے گا۔ (جناب کو شاید یاد نہ ہو ماضی کے حکمران تو اس قدر رقم اپنے گھر کی سڑک پر خرچ کر ڈالتے تھے)
٭خبر ہے کہ حکمران جماعت کے ایک عدد ایم پی اے کی فیکٹری پر ایف آئی اے کے جس یونٹ نے چھاپہ مارا تھا اور بھاری مقدار میں بجلی اور گیس چروی پکڑی تھی وہ سارے کا سارا فارغ کردیا گیا ہے۔ صرف فراغت کافی نہیں۔ دوسرے حکمران ارکان کی طرح ایم پی اے موصوف بھی جدید ریاست مدینہ بنانے میں مصروف تھے۔ (صاف ظاہر ہے جب تک اپنا پیٹ نہیں بھرے گا تب تک دوسروں کا خیال کرنا مشکل ترین ہو گا اس لیے جناب سب سے پہلے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا) چھاپے کی گستاخی کرنے والوں کے نام ریاست مخالف بیانیہ بڑھانے والوں کی فہرست میں ڈالے جانے چاہئیں۔
٭آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے اس پر اعتراض اٹھایا ہے۔ اعتراض مسترد کیا جاتا ہے۔ فی زمانہ قوم اور ریاست ہم معنے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اور پی ٹی آئی ہم معنے ہے ریاست اور قوم کے۔ ریاست اور قوم خود پر قومی خزانے سے خرچ کرے تو اعتراض کرنا مداخلت بے جا اورقومی مفاد کاخیال رکھنا ہے۔