لطیفوں کا عشرہ
جمعہ کو کراچی میں عظمت صحابہؓ کے نام سے ایک بہت بڑی ریلی ہوئی۔ لاکھوں افراد شریک تھے۔ مولنا ڈاکٹر عادل خان اورعلما کمیٹی نے قیادت کی۔ ہفتے کو پھر عظمت صحابہؓ ہی کے نام سے ایک اور بہت بڑی ریلی ہوئی۔ اس میں بھی لاکھوں افراد شریک تھے، مفتی منیب الرحمن نے قیادت کی۔ ملک بھر کے اخبارات نے اس کی خبر شائع کی، تمام کے تمام نے صفحہ آخر پر ایک کارنر میٹنگ کے طور پر۔ پہلی نظر میں کسی کی نظر سے گزری، کسی کی نظر سے نہیں گزری۔ ٹی وی پر چند سیکنڈ کی جھلک بھی دکھائی گئی۔ کسی نے دیکھی، کسی نے نہیں دیکھی۔ قومی میڈیا حیرت انگیز طور پر ایک ہی طرح کے فیصلے کرنے لگا ہے۔ تمام نیوز ایڈیٹر کو بیک وقت کیسے پتہ چلا کہ یہ صفحہ آخر پر لگانے والی خبر ہے اور یہ نیوز ویلیو نہیں رکھتی کہ اسے نمایاں شائع کیا جائے۔ یہ القا تھا، یا کہیں عالم بالا سے ذہن میں نازل ہونے والا خیال، جو تمام نیوز انچارج پر بیک وقت ایک ہی انداز میں اترا؟ ظاہر ہے، ایسا ہی ہو گا، کوئی پریس ایڈوائس یا "آرڈر" کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حکومت یہ اطلاع دنیا بھر کو دے چکی ہے کہ پریس جتنا آزاد ہے، اتنا دنیا میں اور کہیں بھی نہیں۔ واقعی! دنیا سے مراد شمالی کوریا نہیں ہے، دنیا ہی ہے۔
چند روز ان ریلیوں سے پہلے پشاور میں مولانا فضل الرحمن کا جلسہ تھا۔ صحیح معنوں میں ملین مارچ بلکہ ملین ملین مارچ۔ سوشل میڈیا پر اس کے مناظر "وائرل" ہوئے جو یقینا دل دہلا دینے والے تھے۔ اگلے روز اخبارات میں اس ریلی کو اس سے بھی کم جگہ ملی جتنی صوبائی وزراء کے ٹوئیٹ کو ملتی ہے۔ بعض اخبارات نے تصویر سرے سے چھاپی ہی نہیں، بعض نے چھاپی تو صرف سٹیج اور مقررین کی۔ درجن بھر مقررین تھے، چند درجن بھر سامعین ہوں گے۔ ظاہر ہے، یہاں بھی مشکلات کا سامنا تھا۔ پریس واقعی آزاد ہے، اتنا آزاد کہ شمالی کوریا، معاف کیجیے گا، پوری دنیا میں نہیں ہو گا۔ دھرنے کو ساڑھے چار ہزار گھنٹے لائیو کوریج دینے کا فیصلہ بھی اس نے کامل آزادی سے کیا اور دسیوں لاکھ کے جلسے کو دس سیکنڈ میں بھگتانے کا اقدام بھی اس کی آزادانہ مرضی کا تھا۔ تاریخی ریلی تھی، اسی لیے علم ہوا کہ میڈیا مکمل آزاد ہے، ہم خیال بھی ہے۔ ایک ہی فیصلہ سب مل کرکریں تو یہ صرف آزادی صحافت ہی کا نہیں، قومی اتفاق رائے کا بھی مظہر ہے۔
سال بھر سے اوپر ہوا جب مولانا نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو کسی "فرد" نے فرداً فرداً فون کر کے مشورہ دیا تھا کہ اوّل تو جلسہ دکھانا نہیں، دکھانا ضروری ہے تو لانگ شاٹ اور ڈرون طیارے کیمرے سے لی گئی فوٹیج بالکل نہیں چلانی۔ لیکن بدقسمتی سے ایک چینل کو یہ مشورہ یا تو سمجھ میں نہیں آیا یا پسند نہیں آیا۔ اس نے لانگ شاٹ بھی دکھا دیئے۔ پھر بھیڑ چال چلی اور باقی چینلز نے بھی ایسا ہی کیا۔ چند ایک البتہ مشورے کو حتمی جان کر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے رہے۔ گویا ایک کی غلطی نے قومی اتفاق رائے کو غتر بودکر دیا۔ شکر ہے، اس بار بندوبست پکا تھا، قومی اتفاق رائے کی طبیعت کو ہر لحاظ سے مقبول خاطر رہا۔
پچھلے آٹھ دس دن لطیفوں کے تھے، اس حد تک کہ ایک المیے کو بھی لطیفے کا روپ دے دیا گیا۔ پہلا لطیفہ تو وہی کراچی کا پیکج تھا، گیارہ سو ارب روپے والا۔ لطیفے عام طور پر کافی مدت چلتے اور تازہ رہتے ہیں لیکن اس لطیفے کے ساتھ لطیفہ یہ ہوا کہ دو ہی دن میں باسی ہو گیا۔ کراچی پیکج کے تاریخ ساز اعلان کو چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ اس کی ہوا نکل گئی۔ نکل کیا گئی حکومت نے خود ہی نکال دی۔ پتہ چلا کہ پیکج اتنا ہی ہے جتنا سندھ حکومت نے پہلے سے کچھ منصوبوں پر لگا دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ وفاقی حکومت نے پہلے رقم کی تقسیم کا فارمولا دیا کہ اتنے پیسے سندھ حکومت دے گی، اتنے ہم۔ پھر کہا کہ ہم تو اتنے بھی نہیں دیں گے کیونکہ سندھ حکومت کرپٹ ہے، سارے کھا جائے گی، پھر پتہ چلا کہ رقم پرائیویٹ سیکٹر سے لی جائے گی۔ خوب سبحان اللہ تک بات پہنچی اور اب معلوم ہوا کہ ایک دھیلہ بھی نہیں ملے گا۔ دو دن تک لوگ کراچی پیکج کا نام سن کر ہنستے رہے، اب کوئی بھی نہیں ہنستا، نام سن کر برا سا منہ بنا لیتا ہے یعنی دو ہی دن میں لطیفہ گھس بھی گیا، پٹ بھی گیا۔ عاے لطیفے تیرے انجام پر رونا آیا
دو لطیفے نیب نے جاری کیے۔ پہلا یہ کہ بلین ٹری سونامی جسے پختونخوا کے عوام بھی پیار سے سونامی کا نام دیتے ہیں، کی تحقیقات ہو گی۔ دوسرا یہ کہ آٹا گندم سیکنڈل یعنی خبر آئی کہ وزیر اعظم نے اضافہ کا نوٹس لیا ہے جس کے بعد قیمت اور بڑھ گئی۔ تین چار نوٹس لیے گئے۔ اب قیمت مطلوبہ ہدف کو پہنچ گئی ہے، غالباً۔ اسی لیے وزیر اعظم مزید نوٹس نہیں لے رہے۔ ان دونوں لطیفوں میں تشریح طلب کوئی بات نہیں۔ یہ منہ بولتے لطیفے ہیں۔ ہاں اس میں کوئی معنے آفرینی یوں پیدا ہو سکتی ہے کہ نیب دونوں سکینڈلز میں نواز شریف کے وارنٹ جاری کر دے۔
موٹروے پر خاتون سے اس کے بچوں کے ساتھ زیادتی کا سانحہ لرزہ خیز ہے۔ حکومت نے کاریگری میں اتنی پھرتی دکھائی کہ دو ملزم بھی دریافت کر لیے۔ کاریگری میں پھرتی کی حد یہ تھی کہ راتوں رات دونوں کے شناختی کارڈ بنائے گئے جن میں نہ انگوٹھے کا نشان تھا نہ تاریخ اجرا اور نہ ہی تصویر درست لگائی گئی۔ ایک ملزم نے از خود پیش ہو کر اپنے ملوث ہونے کی تردید کر دی اور متاثرہ خاتون نے بھی کہہ دیا کہ یہ وہ نہیں ہے۔ یوں حکومت کا "فوری انصاف" فراہم کرنے کا پراجیکٹ کراچی پیکج کی طرح انجام کو پہنچا، ہو سکتا ہے، اب کوئی نئے شکار ڈھونڈ لیے جائیں لیکن عوامی سطح پر جو رائے بننا تھی بن گئی۔