لہو کی بساط
چند دن پہلے پشاور میں ایک عجیب قتل ہوا ہے۔ ایک 80سالہ شخص گل خاں نے اپنے 93سالہ دوست گل زمان کو اس لئے قتل کر دیا کہ وہ اس سے بات چیت نہیں کر رہا تھا۔ اس نے تین دن انتظار کیا اور چوتھے دن سربازار پیچھے سے جا کر گولی مار دی۔ ویڈیو ملی ہے۔ اس میں گل زماں گولی کھا کر اوندھے منہ گرتا دیکھا جا سکتا ہے۔ گل خاں نے بعدازاں گرے ہوئے زخمی گل زماں پر سارا پستول خالی کر دیا اور پھر آرام سے واپس چلا گیا۔ قتل کی ایسی وجہ کم ہی سنی ہو گی اور اس عمر کے قاتل مقول بھی کم ہی دیکھنے میں آئے ہوں گے۔
ایک اسی سالہ بوڑھے پر آخر کیا کیفیت طاری ہو گئی جو قتل کئے بغیر ٹل نہیں سکتی تھی۔ انوکھا ماجرا ہے۔ یہ قتل اسی سالہ بوڑھے نے کیا یا اس کے اندر موجود کیفیت نے یا اس کی قسمت میں لکھا تھا کہ اس نے اخیر عمر میں قاتل بننا ہے۔ کرشن ایک جگہ کہتے ہیں (ارجن سے مخاطب ہو کر) کہ نہ کوئی قاتل ہوتا ہے نہ مقتول۔ تشریح اس فقرے کی گمراہی کی طرف لے جاتی ہے بس سوچتے رہنا کافی ہے۔
٭قتل کرنا انسان کی مجبوری ہے وہ شخص قتل نہیں کرتا جسے قتل کرنے کا موقع نہیں ملتا یا جو اتنا ڈرتا ہے کہ قتل کے بعد کے حالات کا تحمل نہیں کر سکتا، چند ہی فیصد ایسے ہوں گے جو قتل یا کوئی اور اسی طرح کا سنگین غیر انسانی جرم موقع ہونے کے باوجود نہ کریں۔ معاف کیجیے گا، روانی میں جرم کو غیر انسانی لکھ دیا۔ جرم ہوتا ہی انسانی ہے۔ انسان کے سوا اور کوئی مخلوق جرم کے تصور سے ہی ناآشنا ہے۔ فرشتوں کی بات یاد آتی ہے
٭صبح ازل کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ حالانکہ کائنات شروع سے ہی اس کی کوئی صبح ازل نہیں تھی۔ شروع کا مفہوم یہاں ناقابل ادراک ہے کسی کو سمجھ میں آیا نہ آ سکتا ہے۔ خدا کی ذات اور مکان شروع سے ہیں۔ مکان میں کائنات کی موجودہ شکل بعدازاں پیدا ہوئی لیکن کسی اور شکل میں کائنات شروع سے (پھر وہی شروع) تھی بہرحال اس کرہ ارض میں زندگی پیدا ہونے کی حد تک صبح ازل کا لفظ لکھنا البتہ درست ہے۔ لیکن یہ صبح انسان کی پیدائش سے شروع نہیں ہوئی تھی۔
صدھا جانور پہلے سے پیدا ہو چکے تھے، پھر ان کا خون اور آپس کا خون بہانے کو انسان آیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ باغ جنت یمن کے کسی علاقے میں تھا جہاں مٹی سے آدم کی تخلیق ہوئی۔ آدم کو یمن سے نکال دیا گیا تو وہ باغ بھی غائب ہو گیا اور آدم حجاز میں داخل ہوا اور وہاں سے پھر اس کی نسل چاروں اور پھیل گئی۔ اکثر علماء کا کہنا ہے کہ نہیں، وہ باغ آسمانوں پر تھا۔ اس صورت میں مٹی زمین سے آسمان تک لے جائی گئی ہو گی۔ جس نے واپس زمین پر آ کر خون بہانا تھا۔
٭فرشتوں کی بات یہ ہے کہ خدا نے جب انسان کو بنانے کا ارادہ ان پر ظاہر کیا تو وہ تعجب میں پڑ گئے اور پوچھا، مولا آپ ایسی مخلوق بنانا چاہتے ہیں جو زمین پر خون بہائے گا(یسفک الدما)؟ فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا۔ خدا نے فرمایا تم میری حکمت سے لاعلم ہو۔ غیب کا علم کائنات میں خدا کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔ فرشتوں کو بھی نہیں تھا۔ پھر انہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ مخلوق ایسا کچھ کرنے والی ہے؟ انہوں نے وہ مسالہ دیکھ لیا تھا جس سے انسان بنا یعنی اس کا ڈی این اے۔ ڈی آکسی رائیوز نیو کلیک ایسڈ اس ڈی این اے کی فائلوں میں درج ہزاروں صفحات پر مشتمل اس کی تخلیق اور اعمال نامے کی ہدایات انہوں نے آن کی آن میں پڑھ ڈالیں اور انہیں "غیب" کا علم لکھی ہوئی شکل میں عمل کیا۔ فرشتے معصوم ہیں۔ خطا کر ہی نہیں سکتے۔ خدا نے سجدے کا حکم دیا اور حکم ملتے ہی وہ سجدہ ریز ہو گئے۔ حکم سے سرتابی فرشتوں کے ڈی این اے میں ہے ہی نہیں۔
شیطان فرشتوں سے الگ تھا وہ بالقوہ (Potentiaply)خطا کار تھا۔ اس نے سجدے سے انکار کر دیا۔ سرکشی دکھائی۔ سرکشی کیوں دکھائی؟ خدا کے سوال کوئی نہیں جانتا۔ ہم محض اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ "احساس کمتری" میں مبتلا ہو گیا تھا اور اس کے ردعمل میں سرکش ہو گیا۔ اس نے تخلیق کا مسالہ دیکھا اور سمجھ گیا کہ ارے یہ تو میرا بھی باپ نکلنے والا ہے، مجھ سے بھی بڑا سرکش ہے۔ اس کی خلق میں ظلم بھی ہے جہل بھی، خیر محض ایک حصہ، شر دو حصے۔ احساس کمتری سے اپنا مقام گرتا ہوا دیکھ کر سرکش ہو گیا۔ انسان یمن کی جنت سے نکلا۔ حجاز پہنچا وہاں سے میسو پوٹیمیا طوفان نوح میں اس کی نسل برباد ہوئی، چند باقی بچے، ادھر ایران، توراں، ہند، خراسان اور اُدھر افریقہ و یورپ میں پھیل گئے۔ خون بہنے کی جو کہانی حجاز سے شروع ہوئی تھی وہ نہ ختم ہونے والی داستان بن کر پورے کرہ ارض پر محیط ہو گئی۔ خون تب سے بہہ رہا ہے، فساد کی یہ بساط قیامت کے دن لپیٹ دی جائے گی۔ تب تک سطح زمین اسی طرح رنگین ہوتی رہے گی۔