Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Abdullah Tariq Sohail/
  3. Jharoo Pherne Ki Phir Se Zaroorat

Jharoo Pherne Ki Phir Se Zaroorat

جھاڑو پھیرنے کی پھر سے ضرورت

عید کے بعد کیا ہو گا؟ کراچی کے معاصر کی شہ سرخی ہے کہ نیب نے مسلم لیگ کیخلاف بڑے کریک ڈائون کی تیاری کر لی۔ شیخ رشید نے اطلاع دی ہے کہ نیب 31جولائی تک اپوزیشن پر جھاڑو پھیر دے گا۔ شیخ جی نے فرمایا کہ اپوزیشن(مراد مسلم لیگ ہی ہے زیادہ تر) میں کچھ دم نہیں۔ بلا شبہ، جب تک شہباز شریف مسلم لیگ کے قائد ہیں، یہ بے دم ہی رہے گی اور دم بدم بے دم ہوتی جائے گی لیکن اگر دم نہیں ہے تو پھر اتنے بڑے جھاڑو پھیرنا شروع ہو گا اور دو مہینے تک پھرتا ہی چلا جائے گا، الّا یہ کہ جھاڑو نے خود حکمران جماعت ہی کا رخ نہ کر لیا تو۔۔۔۔ آخر ریاستی جھاڑو ہے، اپنا رخ خود بھی متعین کر سکتا ہے۔

جھاڑو تو تین سال سے پھر رہا ہے، اب اس نئی جادو بکشی کی کیا ایمرجنسی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اٹھارھویں ترمیم کو سپرد خاک کرنے میں مطلوبہ تعاون بھی ملنا یقینی نہیں سمجھا جا رہا۔ اٹھارھویں ترمیم کوئی پہلی بار ختم نہیں ہو رہی۔ ایوب خان نے جب ون یونٹ بنایا تھا تو دراصل انہوں نے اٹھارھویں ترمیم ہی ختم کی تھی نتیجہ یہ نکلا کہ آخر کار مشرقی پاکستان الگ ہو گیا اور چھوٹے صوبوں کی پنجاب سے بلا وجہ کی نفرت بڑھ گئی۔ اس لیے کہ جو کچھ بھی ہوا اور جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور جو کچھ بھی ہونے والا ہے، اس کا ذمہ دار پنجاب نہیں۔ پنجاب تو خود ستم رسیدہ ہے۔ باقی صوبوں کے ہاں بلدیاتی نظام کام کر رہے ہیں۔ پنجاب میں موجودہ حکومت نے آتے ہی بلدیاتی ادارے معطل کر دیئے کہ نئے الیکشن کرائیں گے۔ پھر رپورٹس ملیں کہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو ایک سیٹ ملنے کا امکان بھی نہیں ہے اور وہ رجال غائب بھی نہیں آئیں گے جنہوں نے عام انتخابات کی رات کمر کس لی تھی کہ ان کی دلچسپی بلدیاتی انتخابات سے نہیں ہے، چنانچہ الیکشن کا قصہ بھی پاک۔ اب دو سال سے پنجاب کے عوام بلدیاتی نمائندگی سے محروم ہیں۔ یوں پنجاب باقی تین صدیوں سے زیادہ انتقام کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ پنجاب کی سرزمین میں ایک شہر اسلام آباد بھی ہے جو پنجاب سے الگ کر کے وفاق کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ وہاں بلدیاتی ادارہ قائم تھا۔ گزشتہ روز اس کے میئر کا حصہ بھی پاک کر دیا گیا۔

اٹھارھویں ترمیم کا خاتمہ کیوں ضروری؟ اشرافیہ کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ ملکی وسائل پر ملکی عوام نہیں، صرف ان کا حق ہے۔ اس ترمیم کے تحت تھوڑی بہت ترقیاتی سہولیات جو غریب عوام کو مل رہی تھیں، وہی اشرافیہ کو انگاروں پر لوٹنے کے لیے کافی تھیں۔ اس تپش سے نجات حاصل کرنے میں غلط کیا ہے۔ اشرافیہ کا حق ہے اور وہ اس حق کو استعمال کیوں نہ کرے۔ اصول تو یہ ہے کہ صوبوں کے حقوق اور اختیارات میں مزید اضافہ کیا جائے۔ وفاق اسی طرح مضبوط ہوا کرتے ہیں۔ پڑوس میں بھارت کو دیکھ لیجیے، علیحدگی کی تمام تحریکیں اللہ اللہ دم توڑ گئیں کیونکہ صوبائی اختیارات نے علیحدگی پسندوں کے منشور کی مقبولیت ختم کر دی۔ یہاں مقبوضہ کشمیر شامل نہیں اس لیے کہ وہاں علیحدگی کی نہیں، آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ یہ وفاق سے علیحدگی کا کیس اس لیے نہیں ہے کہ یہ بھارت کا حصہ ہے بھی نہیں۔ بھارت نے 48وار میں اس پر یک طرفہ قبضہ کیا تھا۔

شیخ جی نے ایک اور اہم اطلاع بھی دی کہ چودھری برادران کبھی لیگی زمین پر قدم نہیں رکھتے۔ ہو سکتا ہے، کئی لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہ آئی ہو کہ لیگی زمین پر قدم رکھنے کا کیا مطلب ہے۔ شیخ جی بتا رہے ہیں کہ بظاہر اور بباطن جو بھی گرمی سردی اور سرگرمی چل رہی ہے اس کے باوجود قاف لیگ کبھی حکمران اتحاد سے الگ نہیں ہوں گے۔ ان کی فائلوں کے انبار محفوظ ہاتھوں میں محفوظ ہیں۔"گیلی زمین" پر قدم رکھنے کے بعد سارے راستے ایک ہی طرف جائیں گے، نیب کے حراست خانے کی رات۔ شیخ جی بتا رہے ہیں کہ سیانا خاندان الگ ہو کر اپنی نئی خراب نہیں کرے گا۔ رہی کرپشن تو اسے کون روکتا ہے، جی بھر کے کریں، بس حکومت میں شامل رہیں۔

ٹی وی پروگرام جو سیاست کے لیے خاص ہیں، ان دنوں ان کا "مزاحیہ پہلو" خوب ابھر کر سامنے آیا ہے۔ ایک پروگرام میں مسلم لیگ کی مریم اورنگ زیب نے بتایا کہ ان کی حکومت نے 55بڑے ہسپتال اور 6لیبارٹریاں قائم کیں۔ انہوں نے پروگرام میں شریک پی ٹی آئی کے علی زیدی کو چیلنج کیا کہ وہ بتائیں کہ پختونخوا کی حکومت نے سات برسوں میں ہسپتال تو کجا، کسی ہسپتال یا ڈسپنسری کا ایک کمرہ بھی بنایا ہو۔ علی زیدی نے فرمایا، ان کے پاس اس وقت اعدادوشمار نہیں ہیں۔ کسی اگلے پروگرام میں وہ اس چیلنج کا جواب لے کر آئیں گے۔ اعدادو شمار ہوں گے تبھی لائیں گے گویا یہ اگلا پروگرام قیامت کی تیسری تاریخ ہی کو ہو گا۔

اخبار میں آیا ہے کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں عورتوں اور بچوں پر تشدد اور ان کے قتل کی وارداتوں میں 200فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ رپورٹ سس ٹین ایبل Sustanable سوشل ڈیولپمنٹ نے جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق عورتوں سے جبری زیادتی کے واقعات میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بچے اغوا کے بعد قتل کر دیئے جاتے ہیں اور سال ڈیڑھ سے ایسے واقعات میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اضافہ دوگنا ہے لیکن اخبارات میں سنگل کالم اور غیر نمایاں طور پر چھپنے والی خبریں اکٹھی کی جائیں تو اضافہ دوگنے سے بھی کہیں زیادہ لگتا ہے۔ اب جبکہ زبان حال سے "منادی" ہو گئی ہے کہ شوق سے مارو، تمہیں بری کرا لیں گے تو ان واقعات میں دوگنا کیا، چارگنا اضافہ ہو جائے تو بھی کم ہے۔ ایسی کھلی چھوٹ دنیا میں کہیں اور ملی ہو تو دکھا دیں۔ کیا فرماتے ہیں، یہ زعم خود حکومت کے ثنا خوان حضرات!

Check Also

Karakti Bijliyan

By Zafar Iqbal Wattoo