اسرائیل کے حق میں پرمغز دلیلیں
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں باقاعدہ فضائی روابط قائم ہو گئے ہیں اور اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ جلد ہی کچھ دوسرے مسلم ممالک بھی اسے تسلیم کرنے والے ہیں۔ بظاہر یہ دعویٰ مبالغہ آمیز ہے کیونکہ سعودی عرب، بحرین اور مراکش نے تو تسلیم کرنے کے حکم پر سر تسلیم خم کرنے سے قطعی انکار کر دیا ہے لیکن مستقبل کا کسی کو کیا پتہ، جو بات کل تک سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی، وہ آج سوچی بھی جا رہی ہے اور اس پر بحث بھی ہو رہی ہے۔
بحث پاکستان میں بھی چھڑی ہوئی ہے اور ابھی تک یکطرفہ ہے۔ مختلف چینلزپر اسرائیل کے فضائل اور اسے تسلیم کرنے کی برکات کا بیان کھل کر ہو رہا ہے۔ ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور کچھ فائدہ بھی نہیں۔ اس لیے کہ فیصلے تو ہو چکے ہوتے ہیں، بحث تو راہ سیدھی کرنے کا ایک طریقہ ہے اور کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ ہم بحث نہیں کرتے! ہاں ان پر مغز دلائل سے لطف اندوز ہونا ہمارا حق ضرور ہے جو اسرائیل کے حق میں دیئے جا رہے ہیں۔
ایک پرمغز دلیل یہ دی گئی ہے کہ ہم مشرک اور بت پرست بھارت کو تسلیم کر سکتے ہیں تو اہل کتاب اور توحید پرست اسرائیل کو کیوں نہیں ہاں کہتے۔ محض اس لیے کہ وہ یہودی ہے؟ پر مغز دلیل سے واضح ہوا کہ ہم اسرائیل کو اس لیے تسلیم نہیں کر رہے کہ وہ یہودیوں کا ملک ہے، ہندوئوں کا ملک ہوتا تو اب تک مان چکے ہوتے۔ اس پر مغز دلیل نے اب تک کے اس تاریخی ریکارڈ کے پرخچے کس خوبی سے اڑا دیئے کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سرزمین فلسطین پر اس کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ چودہ سو سال سے یہ سرزمین فلسطینیوں کی رہی، یہودی تو ہزاروں سال پہلے ہی اسے چھوڑ کر یورپ افریقہ حتیٰ کہ سائبیریا جا چکے تھے، بعضے ایران اور ہندوستان بھی آ گئے۔ قبل از مسیح سے اس پر رومنوں کا قبضہ تھا، پھر اسلامی خلافت آئی۔ اب اتنی صدیوں بعد وہ واپس آ کر قابض ہو گئے تو سوال اس قبضے کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا ہے نہ کہ ان کے یہودی ہونے کا۔ ویسے بر سبیل تذکرہ، بت پرست مشرک ہندو کے بھارت کو تو ہم نے ضرور تسلیم کر رکھا ہے لیکن کشمیر پر اس کا ناجائز قبضہ فی الحال تک تو غیر تسلیم شدہ ہے۔ اگرچہ عملاً سرتسلیم یہاں بھی خم ہو چکا ہے۔
یہ اکیڈمک سوال البتہ پھر بھی رہے گا کہ فلسطین کی سرزمین صرف اہل فلسطین ہی کی نہیں، یہود کا بھی گھر رہی ہے۔ ماضی بعید میں اس سرزمین پر تین ملک ہوا کرتے تھے جن کی سرحدیں بدلتی رہتی تھیں۔ ایک اسرائیل، دوسرا یہوداہ اور تیسرا فلسطین، بلکہ ایک دور میں تو یہ علاقہ گلیلی، یہودا، اسرائیل، فلسطین سمیت چھ ملکوں میں بھی بٹا۔ تو سوال یہ رہے گا کہ کیا یہود کو اپنی سرزمین پر واپسی کا حق نہیں؟ ۔
اصولی جواب دینا سکالروں کا کام ہے اور ہم خدانخواستہ ذرا سے بھی سکالر نہیں لیکن عملی جواب کو مسلمانوں نے جس طرح بگاڑا اس کی تاریخ پر نظر ڈالنا ہمارا اختیار ضرور ہے۔ برطانیہ نے اپنی بلا مسلمانوں کے سر ڈالنے کے لیے 48ء میں اسرائیل قائم کیا تو یہ موجودہ اسرائیل کے ایک تہائی رقبے کے برابر تھا اور دو تہائی فلسطینیوں کے پاس رہنے دیا گیا تھا۔ فلسطینیوں نے آباد کاروں کی مزاحمت کی اور مصر سے اخوان المسلمون نے جوق در جوق جہادی دستے بھیجے۔ اہل مغرب نے یہود کی مدد کی، چنانچہ عربوں کو شکست ہوئی اور اسرائیل کے زیر قبضہ رقبہ بڑھتا گیا۔
اصولی مؤقف سے کب وابستہ رہنا ہے اور کب عملیت پسندی سے فائدہ اٹھانا ہے، یہ بات عرب نہیں جانتے تھے؛ چنانچہ لڑائی جاری رہی اور ہر معرکے کے بعد یہود کے زیر قبضہ رقبہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ غرب ا ردن، جو اردن کے پاس تھا، اسے چھوڑ کر سارا فلسطین اسرائیل بن گیا۔ رہی سہی کسر 67 کی جنگ نے پوری کر دی اور اسرائیل نے غرب اردن کے علاوہ مصر کے زیر کنٹرول غزہ پر بھی قبضہ کر لیا۔
73ء کی جنگ کے بعد کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا جس میں یہ تسلیم کر لیا گیا کہ سارے کا سارا فلسطین یہودیوں کا ہے، ہاں، فلسطینی غرب اردن اور غزہ میں اپنی حکومت بنا لیں۔ فلسطینیوں کے ایک دھڑے نے اب عملیت پسندی کا سبق سیکھ لیا تھا لیکن دوسرا دھڑا مزاحمت کرتا رہا، نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطینیوں کی الگ مملکت بھی نہ بن سکی۔ غرب اردن میں یہودی تجاوزات جاری ر ہیں اور غزہ اسرائیل بموں کی بارش میں نہا رہا ہے۔
نجومیوں کی پیش گوئیاں محض جزوی حد تک کبھی کبھار ٹھیک ہوتی ہیں اور بالعموم غلط لیکن ایک محترمہ نے 2مئی 1996ء بمطابق 13ذی الحج1416ھ کے نوائے وقت راولپنڈی کا ایک تراشہ بھیجا ہے۔ اس میں ایک دو کالمی خبر ہے، محض قارئین کے تفنن طبع کے لیے سمجھ لیجئے، اس کی سرخیاں پیش ہیں۔ (یہ گویا 24برس پہلے کی پیش گوئی ہے):۔ بڑی سرخی:2020ء تک یہود کا اثر و رسوخ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں عروج پر پہنچے گا۔ ایک رپورٹ جو یورپی یونین اور ہیومن رائٹس واچ کے حوالے سے آئی ہے، بتاتی ہے کہ 2014ء سے لے کر 2018ء تک کے چار برسوں میں عام آدمی کی فی کس آمدنی میں 24فیصد اضافہ ہوا جبکہ 2019ء اور 2020ء کے دوران فی کس آمدنی بڑھنے یا برقرار رہنے کے بجائے 14فیصد کم ہو گئی۔ مذکورہ اول چار برس نواز شریف کے دور حکومت کے تھے۔ معلوم ہوا کہ "کرپٹ" حکمران ہوں تو عام آدمی کو خوشحالی میسر آتی ہے اور ملک ترقی کرتا ہے۔"صادق و امین" آ جائیں تو بربادی ڈیرے ڈال دیتی ہے۔ راست متناسب کا یہ فارمولا بالکل ہی نئی دریافت ہے۔