انہیں عادت ہو گئی ہے
مرزا غالب نے کہا تھا مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پرکہ آساں ہو گئیں۔ لیکن یہ ماجرا مرزا کا تھا اور عملی سے زیادہ ذہنی ہمارا ماجرا، اس سے الٹ ہے یعنی یوں کہ:مشکلیں ہم پر پڑیں اتنی کہ مشکل ہو گئی (زیست مشکل ہے، اسے اور بھی مشکل تو بنا) اور مشکلیں آ رہی ہیں، قطار اندر قطار کوئی نہیں جانتا کہ اور کتنی مشکلیں اس پائپ لائن میں ہیں جو تحریک انصاف نے بچھا رکھی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کا واحد تعمیراتی منصوبہ یہی پائپ لائن ہے۔ ایک تازہ مشکل تو ابھی دو تین ر وز پہلے ہی بجلی کے نرخوں میں اضافے کی شکل میں نازل ہوئی۔ نازل کیا ہوئی ہتھوڑا گروپ کے ہتھوڑے کی طرح سر پہ برسی، کہ اب خبر آئی ہے کہ مزید ایک روپے نوے پیسے اضافے کی درخواست بھی تیار ہے جو فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا جائے گا اور یہی نہیں مزید خبر ہے کہ اگلے دو تین مہینوں میں ایسے ہتھوڑے چار پانچ بار برسائے جائیں گے۔ خبر میں ہے کہ غیر ملکی قرضے اتارے کا اور کوئی طریقہ خاں صاحب کی سرکار کے پاسن نہیں ہے سوائے اس کے کہ بجلی مہنگی کرتے جائو اور یہ قرضے وہی ہیں جو سب سے زیادہ خاں صاحب ہی نے لئے۔ ملک کی پوری ستر بہتر سالہ تاریخ کے ریکارڈ قرضے۔
٭ہم عام لوگ یہ فلسفہ سمجھنے سے قاصر ہیں ہمیں جو بات سمجھ میں آتی ہے بہت سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خاں صاحب کو عادت ہو گئی ہے بجلی مہنگی کرنے کی۔ جس ہفتے نیپر ا والے نرخ بڑھانے کی سمری نہیں بھیجتے، وہ ہفتہ خاں صاحب پر بہت گراں گزرتا ہے اور یہ برہمی اپوزیشن پر اتارتے ہیں این آر او نہیں دوں گا۔ نہیں چھوڑوں گا کی دھمکیاں دہراتے رہتے ہیں۔ مشاہدہ یہی ہے کہ جس ہفتے بجلی مہنگی کرنے کی سمری آتی ہے اس ہفتے نہیں دوں گا، نہیں چھوڑوں گا کی تکرار نسبتاً کم ہوتی ہے اور پھر خاں صاحب کو دوسری عادت قرضہ لینے کی ہو گئی ہے کوئی دورانیہ ایسا نہیں گزرتا جب وہ قرضہ نہ لیں حد تو یہ ہے کہ ایک بار کہا۔ ہم نے پچھلے چار مہینوں میں کوئی قرضہ نہیں لیا۔ اگلے ہی روز سٹیٹ بنک کی رپورٹ آ گئی کہ ساڑھے چار ارب ڈالر کا قرضہ ان چار مہینوں میں لیا گیا۔ خاں صاحب چنانچہ بے قصور ہیں کیونکہ عادت سے مجبور ہیں اور عادت کوئی بھی ہو، بس ایسی ہی ہوا کرتی ہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ شاید انہیں توقع ہو کہ عوام کو بھی بھوکا رہنے کی عادت ہو جائے گی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھوکا رہنا عادت نہیں بنتا، قسطوں میں آنے والی موت بن جاتی ہے۔
٭بجلی اور گیس کے بل، پٹرول کے نرخ حکومت بڑھاتی ہے تو یوٹیلیٹی سٹورز پر چیزیں مہنگی کرنے کا فیصلہ کون کرتا ہے؟ ظاہر ہے یہ نیکی بھی خاں صاحب کی سرکار ہی کرتی ہے کسی بھی دن کا اخبار اٹھا لو یہ خبر ضرور ملے گی کہ یوٹیلیٹی سٹورز پر فلاں شے سو روپے فلاں ڈیڑھ سو روپے مہنگی ہو گئی یوٹیلیٹی سٹورز کو ملنے والی سب سڈی کہاں جاتی ہے؟ یہ معصومانہ سوال کرنے سے احتراز ہی بہتر ہے۔
٭خبر ہے کہ ریور راوی کے نام سے لاہور کے پہلو میں جو نیا شہر بسانے کا منصوبہ ہے اس کے تحت خاں صاحب کی سرکار لوگوں سے کوڑیوں کے بھائو اراضی زبردستی یعنی ریاستی قوت کے بل پر لے رہی ہے۔ خبر میں ہے کہ حاصل کردہ اراضی کو پہلے زرعی قرار دیا گیا اور اب دریائی قرار دے کر معاوضہ بھی اسی حساب سے دیا جائے گا۔ زمین کے متاثرین سخت برہم ہیں، یہ بھی خبر میں لکھا ہے۔ متاثرین کی برہمی سے کیا ہو گا۔ اراضی وہ بھی میلوں میل رقبے کے حساب سے تو انہیں دینا ہی پڑے گی۔ کئی طبقات کا اس سے بھلا ہو گا۔ پوش یعنی ایلیٹ کلاس کو نئے رہائشی علاقے میسر آئیں گے۔ بلڈرز کی چاندی ہو گی سچ پوچھئے تو چاندی نہیں سونا ہو گا، اتنے طبقات کی وسیع تر بھلائی ہی دراصل قومی مفاد ہے۔ متاثرین کو قومی مفاد کے لئے اتنی ذرا سی قربانی ہنسی خوشی دے دینی چاہیے۔ چیئرمین پاک سرزمین پارٹی مصطفی کمال نے کہا ہے کہ جو بھی عمران خاں کی مخالفت کرے گا اسے نیب کا نوٹس آئے گا انہوں نے کہا کہ وفاق اتحادیوں کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کی تنبینہ درست ہے جملہ مشتری ہوشیار باش ہو جائیں اور عمران خاں پر نقد و جرح سے باز رہیں۔ خود کو بھی نیب کے مقدمات سے بچائیں اور اپنے بچوں کو بھی نوے روز کی حراست سے محفوظ رکھیں جو پھیل کر کئی کئی برس تک محیط ہو جاتی ہے۔
٭تھر پار کر کی صوبائی سیٹ پر ضمنی الیکشن ہارنے والے سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب رحیم نے اپنی شکست کا ذمہ دار وزیر اعظم عمران خاں کو قرار دیا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ اگلی بار عمران خاں کے کہنے پر کون الیکشن میں حصہ لے گا۔ اس اجمالی چارج شیٹ کی وضاحت ارباب صاحب نے جاری نہیں کی یعنی سانحے کی وجوہات کی تفصیل نہیں بتائی اس لئے بظاہر ان کا بیان تسلی بخش نہیں۔ بہرحال سندھ ہی کے ایک لیڈر کا بیان یاد آ گیا جو پچھلے ہفتے دیا گیا تھا اس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ جو بھی پی ٹی آئی کا ساتھ دے گا فارغ ہو جائے گا۔ چنانچہ اس موخر الذکر بیان سے ارباب صاحب کے سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے یعنی یہ کہ کوئی نہیں۔ کوئی کا تو ذکر ہی کیا، خان صاحب بھی تب تک اپنا مشن مکمل کر کے جوگ لے چکے ہوں گے لکھ رکھیں۔
٭خبر ہے کہ خاں صاحب نے ان حضرات کو ایک بار پھر دیانت داری کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے جنہیں وہ ماضی میں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہہ چکے ہیں۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ پنجاب کے سب سے بڑا اوراہم ترین عہدہ دینے کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔ شاید یہ متوقع تحریک عدم اعتماد کا توڑ ہے۔ بہرحال پنجاب کے سب سے بڑوں کو مبارکاں ہی مبارکاں۔ ماضی کو بھولئے صاحب، مٹی پائیے۔ روٹی شوٹی کھائیے اور آگے کی سوچیے۔