اخراجِ اسلام ازہند حصہ دوئم
الہ آباد بھارت میں ہندو مسلم بھائی چارے کی علامت تھا، اس کا نام بی جے پی نے بدل کر پریاگ راج رکھ دیا۔ پھر دہلی کے مشہور ریلوے سٹیشن مغل سرائے کا نام بھی تبدیل کر دیا۔ اب اسے پنڈت دین دیال اپادھیائے کا نام دیا گیا ہے۔ بابری مسجد والے فیض آباد کو بھی ایودھیا بنا دیا۔ ابھی خبریں آ رہی ہیں کہ ریاست گجرات کے سب سے بڑے شہر اور سابق دارالحکومت احمد آباد کا نام کرنادتی رکھنے کی تجویز ہے۔ ریاستی دارالحکومت گاندھی نگر اسی شہر سے کچھ فاصلے پر ہے۔ بات یہاں پر رکی نہیں۔ علی گڑھ کا نام بدلنے کے ارادے بھی سامنے آ گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آگرہ کو بھی ہندو نام دیا جائے گا۔ سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ "آگرہ" کے نام میں کیا شے اسلام نظر آتی ہے کہ اسے بھی "شدھی" کرنا ضروری ہے۔ مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کی اتحادی شیو سینا کی حکومت سے مطالبہ ہو رہا ہے کہ مشہور شہر اورنگ آباد کا نام بدل کر سمبھاجی نگر رکھا جائے۔ اورنگ آباد اورنگزیب سے منسوب ہے۔ اسی ریاست کے شہر عثمان آباد کو دھارا شیونگر کہہ کر بلائے جانے کی مانگ بھی آ گئی ہے۔ چلیے ان ریاستوں میں تو ہندو فرقہ پرستوں کی حکومت ہے، جنوب کے صوبے تلنگانہ میں بھی جہاں نان بی جے پی حکومت ہے۔ یہ "یدھ" شروع ہونے والا ہے۔ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدر آباد کو اسلامی دور کی سب سے بڑی یادگار سمجھا جاتا ہے۔ ہندو فرقہ پرستوں نے نہ صرف حیدر آباد بلکہ اس سے ملحق سکندر آباد کے نام بھی بدلنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ دونوں ویسے ہی جڑواں شہر ہیں جیسے سکھر اور روہڑی یا حیدر آباد سندھ اور کوٹری۔ حیدر آباد آزادی سے پہلے الگ ریاست تھا جس پر نظام کی حکومت تھی۔ اسے کانٹ چھانٹ کر پہلے آندھرا پردیش بنایا پھر تلنگانہ کو آندھرا سے الگ کر دیا گیا۔ تقسیم ہند کے بعد مولانا مرتضیٰ احمد مکیش مرحوم نے کتاب لکھی تھی، اخراج اسلام ازہند۔ خوب پڑھی گئی اور پڑھنے والوں نے خوب خون کے آنسو بہائے۔ اس کتاب کا دوسرا حصہ لکھنے کا وقت آ گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭قاف لیگ کے رہنمائوں پرویز الٰہی اور طارق بشیر چیمہ کی جہانگیر ترین سے ملاقات اور گفتگو کی ویڈیو لیک ہوئی یا لیک کی گئی۔ رونق بہرحال اس نے خوب لگائی۔ ملاقات میں دونوں قاف لیگی حضرات نے مطالبہ کیا کہ وہ گورنر پنجاب کو روکیں، وہ بزدار کو کام کرنے نہیں دے رہے۔ اس ویڈیو سے پنجاب میں تقسیم کار پر روشنی پڑی اور تقسیم کار کے نتیجے میں پیدا ہونے والے "رنج و غم" پر بھی۔ بعدازاں لیکن جو کچھ پرویز الٰہی صاحب نے فرمایا، وہ "حسن طلب" کے سوا کچھ نہیں تھا۔ فرمایا جب شکوے دور نہیں کئے جائیں گے تو غصہ سیکرٹ بیلٹ پر نکلے گا۔ اشارہ سینٹ کی دو سیٹوں پر ہونے والے انتخابات کی طرف تھا۔ مطلب یہ کہ ہماری مانگیں پوری کرو ورنہ ہم کسی اور کو ووٹ دے دیں گے۔ کسی اور سے مراد مسلم لیگ ن سے ہے۔ ایسا ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں اُٹھنا۔ وزیر اعظم مانگیں پوری کر دیں گے اور دونوں جماعتوں کا اصولی اتحاد جوں کا توں رہے گا۔ یہ سوال البتہ بنتا ہے کہ مانگیں پوری کی پوری پوری ہوں گی یا ادھوری، خیر سے کچھ لو کچھ دو کا اصول تو اپنی جگہ موجود ہی ہے۔ سنا ہے کہ وفاق میں دو وزارتیں مانگی جا رہی ہیں۔ خاں صاحب کے لیے یہ کوئی مشکل کام تو نہیں۔ وفاق میں وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصیوں کی اتنی بڑی بارات ہے۔ دو باراتی بڑھ جانے سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ایک بامراد وفاقی وزیر کے گھر بندر گھس آئے۔ موصوف نے پولیس کو فون کر دیا کہ نامعلوم افراد آ گئے ہیں، بچائو… پولیس پہنچی تو راز کھلا کہ ملحقہ جنگل سے آنے والے بندر تھے، افراد نہیں۔ وفاقی وزیر کیوں ڈر گئے؟ موجودہ حکومت کے سارے وزیروں گورنروں کو جیسی سکیورٹی اور پروٹوکول میسر ہے اور جس طرح سارے ادارے ان کے آگے پیچھے ہیں۔ اسے سامنے رکھتے ہوئے گورنر اور وزیر کے دل میں کسی خطرے کا خیال تک نہیں آنا چاہیے تھا۔ ٹی وی چینلز پر ان کی "بہادری" کے بہت مظاہرے دیکھے۔ اس لیے یقین نہیں آتا کہ وہ بندروں سے ڈر گئے ہوں گے۔ ممکن ہے انہوں نے کھڑکی سے بندر دیکھ لیے ہوں اور احتراماً انہیں "افراد" کہہ کر پولیس کو اطلاع دی ہو۔ خود کھڑکی سے باہر نہیں آئے کہ کھرونچیں لگنے کا خطرہ تھا۔ ہندوستان میں مسلم نواب حضرات خطرے والی چیزوں سے بہت ڈرتے تھے۔ حکم تھا کہ سانپ کو سانپ مت کہو، رسی کہو۔ ہوا یہ کہ ایک نواب صاحب کے محل میں سانپ گھس آیا۔ خادمہ دوڑی دوڑی نواب صاحب کے عشرت کدے میں داخل ہوئی اور دھائی مچائی کہ حجور، حجور، محل میں رسی گھس آئی۔ نواب صاحب اچھل کر پلنگ پر چڑھ گئے اور صدا دی، ارے کسی مرد کو بلائو۔ رسی کو بھگائے۔ اپنی پولیس تو ہوتی نہیں تھی، ورنہ سیدھا رسی کو فون کرتے۔ ٭٭٭٭٭خبر ہے کہ نیب کرپشن کے الزام میں حکمران پی ٹی آئی کے کچھ ارکان کو بھی پکڑنا چاہتا ہے۔ خبر درست لگتی ہے۔ لگتی کیا معنی، بالکل درست خبر ہے۔ اس لئے کہ حال ہی میں خبر آئی تھی کہ 26ایم پی اے ناراض ہیں اور کسی وقت بھی اظہار ناراضی کر سکتے ہیں۔ چنانچہ پوری درست خبر پھر یوں ہو گی کہ نیب کرپشن کے الزام میں حکمران جماعت کے چھ نہیں۔ 26ارکان کو پکڑنا چاہتا ہے۔ ویسے کچھ والی بات بھی درست ہے۔ کچھ کو پکڑا جائے گا، باقی خود ہی سدھر جائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ایک محترمہ وزیرہ صاحبہ زرتاج گل کے خلاف اخبار والوں نے بے وجہ کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ محترمہ قانون پسند اور قانون دوست وزیر ہیں، قانون سے دوستی نبھانے تھانے تشریف لے گئیں، تھانے والوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے تھانیدار کی کرسی پر بیٹھ گئیں اور ایس ایچ او کا خاصا کام خود ہی کر دیا۔ اس "تعاون" پر تو انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے تھا۔ سنا ہے نان کسٹم پیڈ، سمگلر گاڑیوں کو قانونی شکل دینے کا معاملہ تھا۔ سو قانونی تقاضے خود ہی پورے کر دیے۔ قانون کی بالادستی پر احتجاج ٹھیک نہیں صحافی بھائیو!٭٭٭٭٭ایک ترجمان۔ جن کے پاس وزارت ریلوے کا اضافی محکمہ بھی ہے، اطلاع دی ہے کہ اگلے ماہ سندھ سے اہم گرفتاری ہو سکتی ہے۔ اہم گرفتاری سے مراد زرداری صاحب ہی ہو سکتے ہیں۔ ترجمان نے ازراہ احتیاط ان کا نام نہیں لیا۔ ترجمان کی احتیاط پسندی قابل داد ہے۔