حد کی حد
ملک کو ایک نئے آئینی اور قانونی بحران نے آ لیا ہے، جس کی وجہ سے توجّہ اس عذاب سے ہٹ گئی جو مہنگائی کے نام سے مسلّط ہے اور مہنگائی بھی وہ جسے حد سے زیادہ کہنا بھی کافی نہیں رہا کیونکہ حد سے زیادہ کی حد تو وہ کب کی عبور کر چکی۔ اب تو کوئی نیا لفظ استعمال کرنا ہو گا لیکن کیا کیا جائے، لغت کی بھی مجبوری ہے۔ حد سے زیادہ کے آگے کے مفہوم کا کوئی لفظ اس میں ہے ہی نہیں۔
٭اہل لغت اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ مدّتوں سے دستور ہے کہ عوامی بول چال میں جس لفظ یا محاورے کا اضافہ ہو اور اس کا چلن بھی ہو جائے تو اسے لغت میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ اردو کی لغت تو ایک عرصے سے جیسی ہے، ویسی ہی ہے البتہ بدیسی زبانوں کی لغت سال بہ سال بھولتے جا رہے ہیں۔ آج سے تین چار عشرے پہلے کی کنسائز انگلش (آکسفورڈ) ڈکشنری کو دیکھ لیں۔ لائبریریوں میں مل جائے گی۔ آج کی "کنسائزڈ ڈکشنری سے چار گنا چھوٹی ہو گی۔ انگلش اور دوسری یورپی زبانوں میں ہر سال ہزاروں الفاظ کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ویسا ہی اضافہ ہمارے ہاں بھی ہوتا ہو گا لیکن یہاں لغت بنانے کی ویسی کوئی "فیکٹری" نہیں ہے۔ ایک فیکٹری"مقتدرۂٔ زبان اردو" کے نام سے جو صدی کے صدی اپنا ایڈیشن نکالتی ہے۔
٭اس مقتدرہ کے لوگ منڈی، بازار یا پٹرول پمپ جائیں تو انہیں پتہ چلے کہ کیسے کیسے نئے الفاظ، محاورے اور ملاحیاں وجود میں آ رہی ہیں۔ گاہک جب خریداری کرتا ہے تو نئے نئے الفاظ اور محاوروں کی بوچھاڑ کرتا ہے۔ دکاندار اس کے ارشادات کی تائید کرتا ہے اور تائید مزید کے طور پر دوچار الفاظ اپنے پاس سے جڑ دیتا ہے۔ یہی حال پٹرول پمپوں کا ہے۔ منڈی بازار کیا، گھروں کے اندر بھی کچھ ایسا ہی احوال ہے۔ ٹی وی پر جب مہنگائی کی خبر چلتی ہے اور پھر کسی وزیر کا بیان آتا ہے تو اہل خانہ میں بھی نئے الفاظ کے "اجرا" کی دوڑ لگ جاتی ہے۔ مقتدرہ والے گھروں میں جانے سے تو رہے لیکن منڈی بازار کا دورہ تو فرما سکتے ہیں، پٹرول پمپ جا کر وہاں برپا "ملافظہ" کا "ملاحظہ" بھی کیا جا سکتا ہے۔ سال بھر میں لغت دوگنی نہ ہو جائے تو ہمیں پکڑ لیجیے گا۔
٭مہنگائی حد سے زیادہ کی حد کب کی عبور کر چکی، اب تو آواز کی رفتار سے خلائی سفر کر رہی ہے۔ اس "سائنس فکشن"مہنگائی کی وجہ مسلسل بدل رہی ہے اور کیوں نہ بدلے، یہ درد ہی تبدیلی کا ہے۔ پہلے ڈیڑھ سال مہنگائی کی وجہ ماضی کی کرپٹ حکومتیں تھیں، پھر اگلے ڈیڑھ برس معلوم ہوا کہ مہنگائی کرونا کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ اب پتہ چلا کہ عالم منڈی میں تیل مہنگا ہو گیا ہے، اس لئے مہنگائی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ عالم منڈی میں تیل کتنا مہنگا ہوا اور یہاں مہنگائی کس بے محابا انداز میں آئی، یہ موازنہ کیا جائے تو حکومت والے ناراض ہو جاتے ہیں۔
٭ہفتہ ڈیڑھ پہلے ایک وزیر نے بتایا کہ مہنگائی میں 9فیصد اضافہ کچھ زیادہ نہیں۔ چینی میں شکر کے سو دانے مت ڈالیں، صرف 91ڈالیں مہنگائی کا مسئلہ حل۔ سو نوالے نہ کھائیں، 91کھا لیں، کام چل جائے گا، آپ اتنا بھی نہیں کر سکتے۔ موصوف مہنگائی میں اضافے کی شرح کو مہنگائی میں اضافے کی فیصد سمجھ بیٹھے حالانکہ یہ دونوں الگ الگ ہیں۔ موصوف کے حساب سے مہنگائی اتنی ہے کہ سو روپے کی چیز ایک سو نو روپے کی ہو گئی۔ موصوف کے ہاں خدا کا بہت فضل ہو گا، چنانچہ وہ مہنگائی سے لاعلم ہیں۔ ماجرا یہ ہے کہ سو کی چیز کوئی اڑھائی سو کی تو کوئی تین سو کی مل رہی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ دراصل اڑھائی سو سے لے کر پانچ سو فیصد ہے اور مہنگائی جس شرح سے بڑھ رہی ہے، وہ بھی تو نہیں، بارہ تیرہ اور بعض اندازوں کے مطابق سترہ فیصد ہے۔ موصوف اتنے سادہ ہیں یا سادہ بننے کی کوشش کر کے ثواب کمانے کے چکر میں ہیں؟
٭جو بحران آئینی اور قانونی ہے، وہ تو کسی نہ کسی کروٹ حل ہو ہی جانا ہے۔ یوں نہیں تو یوں، لیکن حد سے زیادہ کی حدیں عبور کر جانے والی مہنگائی کی "ولاسٹی" کو پیچھے لانے کے لئے کون سی "سائنس" لڑائی جائے؟ یہ بات کسی کو نہیں پتہ۔ ان کو بھی نہیں تو ان لوگوں کو لائے ہیں جو یہ مہنگائی کا سونامی لائے ہیں۔
٭وزیر اعظم نے ایک بار پھر مہنگائی کا نوٹس لے لیا ہے، یعنی مہنگائی کی شرح اب بارہ تیرہ فیصد سے بھی بڑھ جائے گی۔ شاید 14فیصد ہو جائے۔ اطلاع یہ ہے کہ صرف نوٹس ہی نہیں لینا، اجلاس بھی بلانا ہے مطلب شرح 15فیصد بھی ہو سکتی ہے۔ خیر، اسی دوران شیخ جی نے اطلاع دی ہے کہ مریم نواز اپنی سیاسی قبر کھودیں گی۔ یاد پڑتا ہے چھ ماہ پہلے شیخ جی نے اطلاع دی تھی کہ مریم نواز اپنی قبر کھود چکی ہیں اور سال بھر کی بات ہے، شیخ جی کا کہنا تھا کہ مریم نے اپنی قبر کھود لی۔ یعنی مریم اس بار اپنی تیسری قبر کھود رہی ہیں۔ پہلی دو قبروں کا کیا بنا؟
شیخ جی ہی بتا سکتے ہیں۔ بعض قبریں کھودی کسی کے لئے جاتی ہیں، دفن کوئی اور ہوتا ہے او بعض قبریں بس کھدی رہ جاتی ہیں اور دفن کوئی بھی نہیں ہوتا۔ 2014ء کے دھرنے میں قبریں کھودی گئیں تھی۔ ایک بزرگ نے کفن پہن کر اعلان بھی کر دیا تھا کہ وہ کل شہید ہو کر اس قبر میں دفن ہونے والے ہیں۔ ساتواں سال جا رہا ہے، وہ "کل" ابھی تک نہیں آئی۔ لگتا ہے کہ شیخ جی کے پاس قبروں کے علاوہ، بتانے کے لئے اور کوئی اطلاع نہیں ہے۔
٭بہت ہی بڑے شاعر، ادیب، دانشور اور ساتھ یہ بہت بڑے انسان اور انسانیت نواز، مشفق دوست ڈاکٹر اجمل نیازی چل بسے۔ محفلوں کی جان اور رونق تھے، کچھ عرصہ بیمار بھی رہے اور اہل اقتدار کی بے نیازی کا گلہ بھی کرتے رہے۔ بہت صدمے والی خبر ہے۔ خدا ان کو غریق رحمت فرمائے، یہ دعا ہے اوران کی یاد۔