Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Abdullah Tariq Sohail/
  3. Ghair Zimmedar Media

Ghair Zimmedar Media

غیر ذمہ دار میڈیا

وزیراعظم نے اپنے ٹویٹ میں کیسی سچی بات کردی۔ فرمایا، سیاستدان اپنی بڑی بڑی حویلیوں میں پرتعیش زندگی گزارتے ہیں۔ بہت افسوسناک حقیقت ہے۔ یہ سیاستدان تین سو کنال میں بنی جنت میں رہتے ہیں۔ زمین پر پائوں نہیں دھرتے، چارٹرڈ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں پر اڑے اڑے پھرتے ہیں۔ کبھی زمین پر سفر کرنا پڑ جائے تو ان گنت گاڑیوں کے بری بیڑے کے ہمراہ سفر کرتے ہیں اور ہر گاڑی کروڑوں کی ہوتی ہے، لاکھوں کی ایک بھی نہیں ہوتی۔ تین سو کنال کی جنت میں ناشتہ دیسی مرغیوں کا، لنچ ثابت بھنے ہرن کا اور ڈنر نایاب پرندوں کا ہوتا ہے اور کہیں دعوت پر جانا پڑ جائے تو 133 سے کم ڈشوں پر راضی ہی نہیں ہوتے اور اس طرح کے تناولات کے بعد مائل بہ ارشادات یوں ہوا کرتے ہیں کہ ہم تو آئے ہی اس لیے ہیں کہ غریبوں کو ریلیف دیں۔ واللہ وزیراعظم نے کیسی سچی ثابت کردی۔

وزیراعظم نے ایک اور حقیقت افروز انٹرویو دیا ہے اور اس میں مزید چشم کشا انکشافات کئے ہیں۔ فرمایا کہ پریس (میڈیا) کی غیر ذمہ دار رپورٹنگ کی وجہ سے ڈالر مہنگا اور روپیہ سستا ہوا۔ سولہ آنے سچا انکشاف کیا۔ اسی لیے تو ڈالر مہنگا ہونے کے بعد آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے اس کی خبر ٹی وی دیکھ کر ملی۔ ڈالر سٹیٹ بینک نے مہنگا کیا تھا اور ظاہر ہے کہ اس نے ایسا پولیس کی گمراہ کن رپورٹنگ سے گمرا ہو کر کیا۔ ویسے سال بھر حکومت کے وزیر مشیر اور ترجمان یہ بتاتے رہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کو مصنوعی طور پر روکا رکھا تھا۔ ہم نے یہ مصنوعی رکاوٹ ہٹا دی تو ڈالر اپنی اصل قدر یعنی گراں قدر پر آ گیا۔ یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ ماضی کی حکومت کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے کہ ڈالر مہنگا اور روپیہ سستا ہورہا ہے۔ اب جا کے حقیقت معلوم ہوئی کہ یہ تو پریس کی غیر ذمہ د ارانہ رپورٹنگ کا کیا دھرا ہے۔ حقیقت کی جستجو یہیں پر رک نہیں جانی چاہتے بلکہ مزید تفتیش کی جانی چاہیے۔ کیا پتہ یہ جو مہنگائی کی ہلاکت خیز لہر عوام کو زندہ غرقاب کئے چلی جا رہی ہے، وہ بھی کہیں میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا نتیجہ تو نہیں۔ ضرور یہ میڈیا بھی ہوگا جس کی گمراہ کن رپورٹنگ کی وجہ سے وقت کے وزیر صحت نے دوائوں کی قیمت میں پانچ گنا اضافہ کردیا۔

ویسے بعض لوگوں کی تحقیقات یہ ہے کہ مہنگائی ازخود یا خود بخود نہیں ہوئی، اس کے پیچھے ارباب اقتدار کا جذبہ خیر خواہی تھا۔ چنانچہ ایک ماہر معاشیات فرخ سلیم نے جو دو برس پہلے تک تحریک انصاف کی حکومت میں کچھ عرصہ مشیر بھی رہے، جو تحقیق کی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت نے آٹے کی مدد میں کچھ لوگوں کو ایک ہزار ارب روپے کی خیر خواہی فراہم کی گئی۔ خیر خواہی کا لفظ فرخ سلیم نے استعمال نہیں کیا۔ ان کا لفظ کچھ اور تھا، احتراماً اس کا تجرمہ خیر خواہی سے کردیا۔ یہ کچھ لوگ کون تھے، بتانے کی ضرورت نہیں۔ کابینہ کے اجلاس کی تصویروں میں آپ انہیں اکثر دیکھا کرتے ہیں۔ مزید احوال میں دوائوں کا معاملہ بھی شامل ہے، یہاں خیر خواہی کی مالیت پانچ سو ارب کی بتائی جانی ہے۔ مبالغہ برگردن محقق۔ ایل این جی کے سلنڈروں میں بھی جو بے احتیاطی اور لاپروائی کی گئی، اس کے پیچھے بھی جذبہ خیر خواہی شامل ہے۔ 22 ارب کی مالیت تو خسارے کی تھی، خیر خواہی ففٹی ففٹی کے حساب سے لگائی جائے۔ پٹرول ایک بار یکشمت بے تحاشا مہنگا کردیا گیا تھا، احباب کو کتنے ارب روپے کی خیر خواہی ملی اور وزیراعظم کے ایک ہم جلیس وندیم بہتر بتا سکتے ہیں۔ باقی خیر خواہی کا عمل لامتناہی ہے اور اسی طرح جاری رہے گا، مبینہ طور پر اڑھائی سال تک۔

ایک پروگرام میں کوئی وزیر یا تدبیر فرما رہے تھے کہ ہم کارکردگی کی بنیاد پر اگلا الیکشن بھی جیت لیں گے۔ مبارک ہو۔ کارکردگی کی تفصیل وزیر موصوف نے نہیں بتائی۔ خیر اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ کسی بھی مشیر کے کسی بھی گلی کوچے میں گھوم پھر کر زبان خلق سے اس کی تفصیل آسانی سے معلوم کی جا سکتی ہے بلکہ آپ کو وہ تفصیل بھی معلوم ہو جائے گی جس کے بارے میں آپ نے دریافت بھی نہیں کیا تھا۔ بہرحال۔ ایک ممتاز قلم کار اور تجزیہ گو نے کل ہی ایک کالم میں شاید اسی صورتحال کے پیش نظر کچھ قابل غور فقرے لکھے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک یہ قلم کار پی ٹی آئی کے سخت گیر حامی رہے ہیں۔ دھرنے کے دنوں میں بھی وہ پرجوش تھے اور تبدیلی کے نافذ کئے جانے پر بھی بہت خوش تھے۔ انہوں نے لکھا کہ الیکشن جب بھی ہوں، کوئی احمق ہی ہوگا جو پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے کی کوشش کرے گا بلکہ امیدوار تو یہ کوشش کریں گے کہ کوئی ان پر پی ٹی آئی کا ہونے کا شبہ بھی نہ کرے۔ یہ "راز" پی ٹی آئی والے بھی جانتے ہیں، پھر وہ پریشان کیوں نہیں نظر نہیں آتے، شاید اس لیے کہ انہیں 2018ء کا ری پلے ہونے کا یقین ہے۔ یعنی یہ کہ آئندہ الیکشن میں بھی تائید غیبی آسمانوں سے قطار اندر قطار اسی طرح ان کی مدد کو اترے گی جیسی 2018ء کے انتخابات میں اتری تھی اور انہیں پھر سے سلیکٹ کر لے گی۔

شیخ رشید نے فرمایا کہ گلگت بلتستان میں الیکشن اتنے شفاف ہوئے کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنے شفاف الیکشن کبھی نہیں دیکھے۔ حیرت ہے 2018ء کے شفاف الیکشن انہوں نے اپنے "دید نامے" سے کیوں خارج کردیئے۔ بہرحال، گلگت کے الیکشن کے شفاف ہونے میں البتہ کوئی شک نہیں۔ پیپلزپارٹی کو 25 فیصد ووٹ ملے اور سیٹیں صرف تین۔ پی ٹی آئی کو اس سے ایک فیصد کم یعنی 24 فیصد ووٹ ملے اور سیٹیں دس۔ شفافیت کا یہی ایک ثبوت ہی کافی و شافی ہے۔ اور ہاں یاد آیا۔ شیخ صاحب وہ جو مسلم لیگ ن میں سے کوئی شین کاف نکالنے کی مہم کہاں تک پہنچی؟ نومبر نکل گیا، دسمبر آ گیا۔ کوئی خوش خبری؟

Check Also

Dyslexia

By Khateeb Ahmad