دلارے میاں
جولائی آنے میں بس دو مہینے رہ گئے، پھر ملکی تاریخ کے دوسرے شفاف الیکشن ہوں گے۔ پہلے صاف اور شفاف انتخابات دو مہینے پہلے مارچ میں آپ سب کے سامنے ہوئے۔ ایسے کہ سب سبحان اللہ کہہ بیٹھے۔ یہ ابھی تک کی سرکاری اطلاع ہے لیکن دلارے میاں نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف فرمایا ہے کہ انتخابات دو مہینے ملتوی ہو سکتے ہیں۔ دلارے میاں اصل سرکار میں بہت پہنچا مقام رکھتے ہیں، اطلاع غلط نہیں ہو سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اصل سرکار کی منشا کے خلاف راز کی بات لیک کر دی ہو اور اس پر انہیں پیار بھری سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ہو لیکن ساتھ ہی یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان سے کہا گیا ہو کہ میاں، اب یہ اطلاع لیک کر دو تاکہ ماحول بنے۔ ادھر ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ الیکشن ملتوی کرنا نظریہ ضرورت کا ضروری تقاضا ہے۔ کچھ فنی وجوہات کی بنا پر نیب ریفرنس کیس کی سماعت مزید لٹک سکتی ہے اور عین الیکشن کے ہنگام کسی کی آزادی، قطعی قومی مفاد میں نہیں۔ اس لیے الیکشن کی تاریخ سزا کے بعد ہی کی ہو گی۔ ٭٭٭٭٭ دلارے میاں بار بار کہتے ہیں کہ وہ زرداری سے ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ اس پر زرداری صاحب سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا اتحاد ہو جائے گا، ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اخبارات میں ان کے منہ سے نکلا یہی محاورہ چھپا ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے یوں فرمایا ہو گا کہ نظریہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے یعنی ام الاختراعات، زرداری صاحب نے مزید وضاحت کی کہ یہ بات تو دلارے میاں سینٹ الیکشن سے پہلے بھی کرتے رہے۔ پھر اتحاد کیا کہ نہیں۔ آئندہ بھی ہو جائے گا۔ ویسے یہ سوال کرنا بنتا نہیں تھا۔ دلارے میاں نے یہی تو کہا ہے کہ ہاتھ نہیں ملائیں گے، یہ تو نہیں کہا کہ اتحاد نہیں کریں گے۔ اتحاد تو اتحاد ہے۔ چاہے ہاتھ ملا کر کیا جائے چاہے ہاتھ ملائے بغیر کیا جائے۔ جن حضرات کو "نوشتہ نویسوں " کے ہاں رسائی ہے ان کا دعویٰ ہے کہ نوشتے میں "اتحاد" کا لکھا جا چکا ہے۔ سو اتحاد تو ہو گا۔ اگر ہو گا تو پھر نام کیا ہو گا۔ یا بے نامی اتحاد ہو گا۔ سینٹ میں تو بے نامی ہی ہوا تھا۔ اگر قرعہ نام نکلنے کا ہوا تو جھگڑا ہو سکتا ہے، کیوں نہ ایسا نام رکھا جائے جس میں دونوں کا نام رہ جائے، مثلاً "زردان الائنس" یا تحریک زردان پارٹی۔ انتخابی نشان بھی ایسا ہی منصفانہ کھوجا جا سکتا ہے کہ دونوں ہی راضی رہیں۔ مثلاً تیر والا بلا۔ آپ نے پیار کا عالمی نشان دیکھا ہو گا۔ وہی جس میں ایک دل دکھایا جاتا ہے جس میں ایک تیر ترازوہوتا ہے، بس دل کی جگہ بلا ہو جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ نوشتے میں وزیر اعظم کے طور پر کس کا نام درج ہے؟ زرداری کا خیال ہے کہ اکثریت آزاد امیدواروں کی ہو گی چنانچہ وزیر اعظم بھی آزاد ہو گا۔ زرداری کا یہ خیال کچھ "ٹھوس شواہد" پر مبنی ہے اور شاہد خود زرداری صاحب ہیں جبکہ مشہور نوشتہ ہے لیکن اصحاب شہودنے دلارے میاں کو اس سے مختلف اطلاع دی ہے۔ وہی پرویز مشرف کے ریفرنڈم والا معاملہ۔"ری پلے" ہونے تو نہیں جا رہا جب اصحاب شہود نے دلارے میاں سے کہا تھا وزیر اعظم تم بنو گے اور کینیڈا والے حضرت جی سے کہا تھا کہ تم بنو گے بعد میں دونوں ہی پیٹتے رہ گئے ایک دل کو، دوسرے جگر کو۔ دلارے میاں کو تو اتنا یقین ہے کہ انہوں نے اپنے عظیم الشان جلسے میں "جو لاہور میں ہوا تھا، گیارہ نکات کا اعلان کر دیا۔ گیارہ نکات کا خلاصہ ایک سطر میں یہ ہے کہ میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا۔ ان گیارہ نکات سے ہٹ کر انہوں نے مزید نکات بھی پیش کئے جن کا ذکر نکات والی مد میں نہیں کیا گیا لیکن یہ غیر علانیہ گیارہ نکات علانیہ والے نکات سے زیادہ اہم تھے۔ یہ بات دلارے میاں اب تک اپنے جلسوں، انٹرویوز اور بیانات میں دو اڑھائی ہزار مرتبہ کر چکے ہیں لیکن ویڈیوز دکھا کر اتنی شرح صدر سے یہ بات پہلی بار کی۔ یہی "ام النکات" ان کا اصل منشور ہے جسے انہوں نے بقول ان کے "ام الجلسات" میں پیش کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب خاں کی ملک و قوم کے لیے ان گنت سنہری خدمات ہیں جنہیں آنے والے دور کا مورخ طلائی حروف میں لکھے گا۔ ایوب خاں خدا ترس آدمی تھے۔ اسی خدا ترسی کے تحت انہوں نے پاکستان کے تین دریا بھارت کے حوالے کر دیے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے، وہ اس نکتے کو بھی اچھی سمجھتے تھے چنانچہ ملکی معیشت انہوں نے عالمی اداروں کے حوالے کر دی۔ ان سے پہلے ملک کی کوئی پہچان نہیں تھی۔ چنانچہ انہوں نے 20گھرانوں میں ساری دولت منتقل کر کے ملک کو ایک "سماجی" پہچان دی۔ علاقے پر عالمی نظر نہیں تھی، آپ نے امریکہ کو اڈے دے کر اسے "فوکل پوائنٹ" بلکہ فلیش پوائنٹ بنا دیا۔ ملک میں وہی دو دو ٹکے کی حقیر رشوت ستانی تھی۔ لوگ پھلوں کی ٹوکری یا مٹھائی کا ڈبہ دے کر کام نکلوا لیتے تھے۔ موصوف ملک میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ چنانچہ رشوت اور کرپشن کی بے قدری ختم کرنے کے لیے تبدیلیاتی پالیسی نافذ کی اور پھر کیسے ڈنکے بجے تو یہ ایوب خاں کو خراج عقیدت ہی کی شکل تھی۔ ملک میں غداروں اور بھارت کے ایجنٹوں کو کھلی چھوٹ تھی۔ وہ پہلے دیدہ ور تھے جنہوں نے جعلی جمہوریت کی تباہ کاری کا پردہ فاش کیا۔ اور حقیقی جمہوریت بنام بنیادی جمہوریت نافذ کی۔ ان کے بعد تین مزید دیدہ ور تشریف لائے جن میں سے تیسرے کا نام پرویز مشرف تھا۔ ان چاروں سے بڑھ کر دیدہ ور خود دلارے میاں ہیں۔ ایوب کو گئے سینتالیس سال ہو گئے۔ خوشا کہ دور ایوبی پھر سے آنے کو ہے…! ٭٭٭٭٭ اب قریب ڈیڑھ ہفتہ ہو گیا، دلارے میاں نے کسی اور وکٹ کے گرنے کی نوید نہیں سنائی۔ خواجہ آصف کی وکٹ گرنے کی اطلاع انہیں ان کے "دورہ لاہور" میں دی گئی جو انہوں نے نام لیے بغیر فوراً نشر کر دی اور اگلے ہی دن یہ نشر یہ ٹھیک ثابت ہوا۔ فکر کی کوئی بات نہیں، ابھی بہت دن ہیں۔ دلارے میاں کی فرمائش ہے کہ میچ شروع ہونے سے پہلے انہیں تمام وکٹیں گرا کر دی جائیں۔ عجیب ماجرا یہ بھی ہے کہ الیکشن2018ء چھپکلی بن گئے ہیں کہ نہ نگلتے بنے نہ اگلتے بنے۔ التوا کی خبر تو آ چکی، یہ دیکھنا باقی ہے کہ ڈیڑھ دو مہینے کا التوا کتنے دنوں کا ہو گا۔ ضیاء الحق نے تین مہینے کا التوا دیا تھا، تین مہینے میں کتنے دن ہوتے ہیں، اس کا پتہ گیارہ سال بعد چلا۔