Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Abdullah Tariq Sohail
  3. Darbar Durbar Ki Qehar Bazian

Darbar Durbar Ki Qehar Bazian

دربار دُربار کی قہر بازیاں

کراچی میں جے یو آئی نے اسرائیل نامنظور مارچ کیا۔ غیر متوقع طور پر ٹی وی چینلز نے اس کی لائیو کوریج نہیں کی۔ لائیو کوریج تو دور کی بات، خبرناموں میں بھی اسے واجبی سے کچھ کم جگہ دی۔ اگلے روز اخبارات میں بھی تلاش کرنا پڑا کہ خبر کہاں چھپی ہے۔ خیر، زیادہ تلاش نہیں کرنا پڑی، جلد ہی نیچے کے حصہ میں خبر مل گئی۔ تصویر البتہ آخری صفحہ پر تھی۔ یہ پتہ نہیں چلا کہ "اسرائیل نا منظور مارچ" کے سلوگن میں کون سی بات ناپسندیدہ تھی؟ اسرائیل یا پھر نا منظور؟ کراچی کے ایک اخبار نے تو خبر بھی آخری صفحے پر دی، البتہ کراچی ہی کے ایک اخبار نے اسے صفحہ اوّل کی شہ سرخی بنایا اور خبر دی کہ مارچ میں عوام کا سمندر امڈ آیا۔ یاد آیا۔

چیئرمین سینیٹ نے سیلف الیکشن میں شو آف ہینڈ کی حمایت کر دی ہے۔ عرض ہے کہ سنجرانی صاحب، آپ بے وجہ پرجوش لگ رہے ہیں۔ الیکشن شو آف ہینڈ کے تحت ہوں یا خفیہ رائے شماری کے تحت، آپ تو دوبارہ چیئرمین بننے سے رہے۔ سنجرانی ماڈل پرانا ہو گیا، اب نئے ماڈل کی رونمائی ہو گی۔ آپ کا انتخاب جیسے ہوا، آپ سے زیادہ کون جانتا ہے لیکن ہر روز روزِ عید نیست کہ حلوہ خورد کس۔ آپ نے عید منا لی، اب کسی اور کی نوچندی ہے۔

حکومت چھٹی بار بجلی کے نرخ بڑھا رہی ہیں اور اس بار تو پورے دو کلو ہتھوڑا عوام کے سر پر برسایا ہے یعنی اکٹھے دو روپے یونٹ مہنگی کر دی۔ ہر روپے پر پانچ الگ الگ ٹیکس ہوتے ہیں، یوں حساب لگائیے (بلکہ لگانے کی ضرورت نہیں، بل آیا ہی چاہتا ہو گا) کہ بل کی مالیت کتنی ہو گی اور سلیب تو خود بخود ہی آگے بڑھ جائے گی۔ ہوش ٹھکانے تو کب کے آ چکے، اب تو ہوش ٹھکانے لگنے کی باری ہے۔ حکومت نے یہ خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ اس مہنگائی کی ذمہ دار ماضی کی حکومت ہے۔ پھر بجلی کے نرخ بڑھانے کا اعلان پریس کانفرنس میں کیوں کیا۔ ایک نوٹیفکیشن جاری کر دیتے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر بجلی دو روپے یونٹ مہنگی کر دی۔ گورنر سٹیٹ بنک نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ابھی وہ معاشی بہتری نہیں آئی جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا مطلب؟ بجلی سو روپے یونٹ کر دیں تبھی وہ "بہتری" آ سکے گی۔

ایک اطلاع یہ ہے کہ بجلی مہنگا کرنے کا یہ عمل آئی ایم ایف کی فرمائش پر ہوا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اطلاع اور بھی ہے اور وہ یہ کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں یعنی آئی پی پیز کے مالکان چونکہ حکومتی عہدیدار بھی ہیں۔ اس لیے انہیں حصہ رسدی دینا بھی ضروری تھا۔ شاید اضافہ اسی حصہ رسدی کا تقاضا ہو، آئی ایم ایف کی فرمائش پر عمل ہونا ابھی باقی ہو۔ ایک قومی اخبار نے چند دن پہلے یہ خبر صفحہ اول پر بہت نمایاں چھاپی تھی کہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر آئی پی پیز سے ایک ہزار ارب روپے کی اضافی ادائیگی واپس لینے کے بجائے الٹا ان کمپنیوں کو جن کے مالکا ن حکومتی عہدیدار ہیں، 450ارب روپے سرکاری خزانے سے دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ یاد ہو گا، جب اضافی ادائیگی واپس لینے کے حوالے سے خبر آئی تھی (خود وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا) تو قلمکاران نے کیسی کیسی تعریفوں کے پل باندھے تھے اور سستی بجلی ملنے کی قوم کو پیشگی مبارک دے ڈالی تھی۔ اب پتہ چلا کہ تھے کواکب کچھ، دکھائے گئے کچھ۔ درباردُربار یعنی گہر بازی اپنوں پر گہربازیاں جاری ہیں، عوام کے لیے اس دربار کے پاس قہرباری کے سوا کچھ نہیں۔

براڈ شیٹ کے قبضے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ محکمہ ریلوے کے سابق وزیر کسی نہ کسی حد تک صاحب کشف ہیں۔ ع

آئے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں

براڈ شیٹ سکینڈل یہ ہے کہ حکومت اور نیب نے ایک دھیلے کا کام کرائے بغیر اس کمیٹی کو اربوں روپے قومی خزانے سے دے ڈالے جو ایک دھیلے سے بہرحال زیادہ کا کام کرنے کی پابند تھی۔ ٹھیکہ مشرف دور میں دیا گیا۔ نواز شریف کے دور میں بھی اسے منسوخ نہ کیا گیا، (حالانکہ امر کی سبھی نشانیاں ختم کرنے اور آرٹیکل 6لگانے کے دعوے کیے گئے)۔ سکینڈل کے بارے میں عمومی رائے یہ تھی کہ حکومت ایک اور سکینڈل میں گھر گئی۔ لیکن شیخ صاحب نے اپنے کشف کے زور سے اعلان فرما دیا کہ براڈ شیٹ کے اندر سے پانامہ ٹو نکلے گا اور شریف خاندان پھنسے گا۔ کیسے؟ یہ کسی کو پتہ نہیں تھا۔ بہرحال، اس کشف کے اگلے روز وزیر اعظم نے پانامہ کیس کے جج کو براڈشیٹ تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ مقرر کر دیا۔ کم از کم اس حد تک کہ پانامہ برآمد ہونے کی راہ ہموار تو ہوئی۔ شیخ جی کا کشف ٹھیک نکلا ویسے شیخ صاحب کا وہ کشف بھی ابھی تک تشنۂ صداقت ہے کہ ن کے اندر سے شین برآمد ہو گی۔ اسی طرح وہ کشف بھی پورا نہ ہو سکا کہ نومبر دسمبر میں اپوزیشن کا صفایا ہو جائے گا۔

شیخ جی کا کشف راستہ ہموار ہونے کی حد تک ضرور پورا ہو گیا لیکن اپوزیشن نے یہ تعیناتی مسترد کر دی ہے اور فضا کچھ ایسی بن گئی ہے کہ کمیٹی نے کچھ برآمد کیا بھی تو اس کا موقع پر ہی سقوط ہو جائے گا۔ سقوط کو براہ کرم اسقاط مت پڑھئیے۔ بلکہ اس کا ہندی ترجمہ "دیہانت" کے حساب سے کیجیے۔ اس صورت میں شیخ جی کا ہر کشف غلط ہونے کا ریکارڈ برقرار رہے گا۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal