بھارتی ایجنٹوں کا اتحاد
مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کے صدر منتخب ہو گئے۔ یہ بڑی خبر ہے لیکن ماضی کے تناظر میں دلچسپ بھی۔ اس لئے کہ مولانا کے والد مفتی محمود مرحوم بھی اپوزیشن کے ایک الائنس کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔ محبان وطن کی نظر سے یہ نکتہ اوجھل رہ گیا ورنہ وہ اسے بھی"موروثی سیاست"دے کر ایک اچھا خاصا نوحہ لکھ ڈالتے۔ مفتی محمود جس الائنس کے سربراہ تھے، وہ نو جماعتی پی این اے عرف پاکستان قومی اتحاد کے نام سے بنا تھا۔ ابتدائً تو یہ انتخابی الائنس تھا لیکن 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے بعد یہ احتجاجی الائنس بن گیا۔ اس اتحاد نے اب تک کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی تحریک چلائی۔ پہلا جلوس لاہور کے نیلا گنبد سے نکلا جس کی قیادت نوابزادہ نصراللہ کر رہے تھے۔ اس جلوس کے شرکاء کی تعداد چھ سات سو سے زیادہ نہیں تھی۔ یوں پہلے ہی روز مبصرین نے اس کی کامیابی کے بارے میں مایوس کن اندازے لگانے شروع کر دیے لیکن پھر یہ تحریک ایک ایک شہر نہیں، ایک ایک گلی محلے میں پھیل گئی۔ تحریک کے نتیجے میں بھٹو کی حکومت تو ختم ہو گئی لیکن ایک طویل سیاہ رات ملک پر مسلط ہو گئی۔ فرقہ واریت، لسانی دشمنی، منشیات کا کلچر عام ہوا، نہ صرف پاکستان بلکہ اسلام کا بھی وہ حال کیا کہ رہے نام اللہ کا۔
پی این اے کی تحریک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امریکہ نے چلائی اور اس نے بہت ڈالر بھیجے۔ دونوں باتیں جھوٹ ہیں۔ تحریک عوام کے اس حصے نے چلائی جو پیپلز پارٹی اور اس کے آمرانہ طور طریقوں کے خلاف تھے۔ عوام نے اس تحریک میں جانیں قربان کیں۔ جمہوریت کے لئے چلائی جانے والی تحریک بعد میں نظام مصطفی کے نفاذ کی تحریک بن گئی اور یہ نعرہ غلط بیانی تھا۔ پی این اے جس قسم کا الائنس تھا۔ وہ نظام مصطفی نافذ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس پر غالب تین مذہبی جماعتیں آپس میں شدید اختلافات رکھتی تھیں اور وہ اسلام کی کسی تشریح پر متفق نہیں ہو سکتی تھیں۔ پھر اس میں سیکولر اور قوم پرست عناصر تھے۔ امریکہ نے تحریک کی حمایت اس وقت کی جب اس نے یہ دیکھا کہ عوام کی اکثریت اس میں شامل ہے۔ اصغر خاں کھلا کھلا امریکہ کے کیمپ میں تھے۔ انہوں نے ایران جا کر شاہ سے ملاقات کی جس میں بہت سے معاملات طے پا گئے۔ واپسی پر انہوں نے اعلان کیا کہ وہ برسر اقتدار آ کر اپنے ہاتھ سے بھٹو کو پھانسی دیں گے اور یہ پھانسی کوہالہ کے پل پر دی جائے گی۔ امریکہ آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کی وجہ سے بھٹو کا دشمن تھا۔ اس نے اپنا وزن اس تحریک کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اصغر خاں کو نیا سربراہ مملکت بنانے کا منصوبہ بہرحال آخر وقت میں تبدیل ہو گیا۔ امریکہ کو زیادہ موزوں، زیادہ وفادار اور زیادہ کارآمد شخص مل گیا تھا۔ مرد مومن مرد حق ضیاء الحق۔ اصغر خان منہ دیکھتے اور ہاتھ ملتے رہ گئے۔ افغان جنگ میں ضیاء الحق نے امریکہ کا "انتخاب"درست ثابت کر دیا۔ امریکہ نے ایک ہی وار میں پاکستان اور افغانستان، دونوں کو ایک طویل تباہی کے عمل میں دھکیل دیا۔
نئے اپوزیشن کا اتحاد پی ڈی ایم(پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ) بھی دلچسپ ہے۔ اس لئے کہ اس نام سے ایک اتحاد ماضی میں بھی بن چکا ہے۔ ایوب خاں کے دور میں ?!اس اتحاد کی قیادت نوابزادہ نصراللہ کر رہے تھے اور اس میں مولانا مودودی، چودھری محمد علی، ممتاز دولتانہ سمیت کئی قومی قائدین شامل تھے۔ یہ اتحاد 1967ء میں بنا اور ایک ڈیڑھ برس بعد اسے ڈیک (ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی) میں بدل دیا گیا۔ پی ڈی ایم نے ایوب خاں کے خلاف زبردست ملک گیر تحریک چلائی۔ 1968ء میں پیپلز پارٹی بھی میدان میں آ گئی جو اس الائنس سے باہر تھی۔ اس کے جلسے پی ڈی ایم کے جلسوں سے بڑے تھے۔ ایوب خاں حکومت چھوڑنے پر مجبور ہو گیا لیکن نئے الیکشن کرانے کے بجائے اس نے یحییٰ خاں کو حکومت دے دی اور یوں ملک سے ناقابل فراموش انتقام لیا۔ ان کا پورا دس سالہ عہد ہی اپنی جگہ ملک سے انتقام تھا۔
ایوب خاں کے دور میں جمہوری جدوجہد پی ڈی ایم سے بھی پہلے، 1965ء کے صدارتی انتخابات سے شروع ہو چکی تھی۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اپوزیشن کی صدارتی امیدوار تھیں۔ ایوب خاں نے انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دیا اور دلچسپ الزام بھی لگایا کہ وہ خان غفار خاں کے ساتھ مل کر آزاد پختونستان بنانے کے لئے سرگرم ہیں۔ شاید ان سے وعدہ کیا گیا ہو گا کہ آزاد پختونستان کی صدر مملکت وہی (فاطمہ جناح) ہوں گی۔ کچھ ہی دنوں بعد جنگ چھڑ گئی۔ ایوب خاں مولانا مودودی سے فرمائش کی کہ وہ بھارت کے خلاف ریڈیو پر خطاب کریں اور وہ انہوں نے کیا۔ 1967ء میں مادر ملت کو شہید کر دیا گیا۔ ایوب خاں کے ہاتھ بہت لمبے تھے۔
امریکہ اور بھارت کا ایجنٹ یا غدار ہونے کا الزام گویا ایک قدیمی ہتھیار ہے۔ بھلے سے وہ ازکار رفتہ ہو چکا ہے لیکن ہے تو ہتھیار۔ ملک پھر 1960ء کی دہائی میں چلا گیا ہے۔ نئے اتحاد کو ملاحظہ کیجیے۔ نواز شریف مودی کے یار، پیپلز پارٹی سکیورٹی رسک اور مولانا فضل الرحمن بھارت کے نسل درنسل وفادار۔ ہمارے اسلامی دانشوروں کا بھلا ہو۔ وہ یہ بات بھولنے کے لئے تیار نہیں کہ مولانا کے بزرگوں نے انگریزوں کی مخالفت کی تھی، غدر برپا کیا تھا، محب وطن انگریزوں کے خلاف افغان حکمرانوں سے ساز باز کی تھی۔ شاید ہی کوئی اسلامی دانشور ہو گا جو مولانا کو ان کے بزرگوں کا طعنہ نہ دیتا ہو اور ہاں، ایک تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ جماعت اسلامی اب محب وطنوں کے کیمپ میں ہے۔ علانیہ نہ سہی، عملاً ہی سہی۔