Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Abdullah Tariq Sohail
  3. Awam Ko Shaadi e Merg Se Bachane Ki Koshish

Awam Ko Shaadi e Merg Se Bachane Ki Koshish

عوام کو شادی مرگ سے بچانے کی کوشش

حکومت کے دو سال پورے ہونے پر اس کی کارکردگی کا غل ہونا چاہیے تھا لیکن اس نے نوازشریف کی واپسی کے لیے اودھم مچا دیاہے۔ کابینہ کے اجلاس ہورہے ہیں، برطانیہ کو خط لکھے جا رہے ہیں، ہر چھوٹا بڑا حکومتی آدمی پریس کانفرنس کر رہا ہے کہ نوازشریف کو واپس لائیں گے، احتساب کریں گے۔ یہ حیرت اپنی جگہ کہ جتنے مقدمے چلنے تھے چل چکے، اب کون سا احتساب کرنا ہے۔ ہاں، تو شرفا کا احتساب رہ گیا ہے اور امر واقعی تو یہ ہے کہ احتساب نوازشریف سے شروع ہوتا ہے اور نوازشریف پر ہی ختم ہوتا ہے۔ احتساب کے یہی معنی ایک ڈکشنری میں بھی لکھے ہیں۔ بلیک لا ڈکشنری ایک بار پھر دیکھ لی ہوتی، شاید نوازشریف کے علاوہ بھی کچھ معنے مل جائیں۔

حکومت جانتی ہے اس کے خط لکھنے سے یا احتساب کے مشیر کی روزانہ کی پریس کانفرنسوں سے نوازشریف کی واپسی ممکن نہیں، پھر وہ اس کار لاحاصل سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ ایک صاحب نے یہ نکتہ بتا کر پریشانی دور کردی کہ دراصل حکومت عوام کو شادی مرگ سے بچانا چاہتی ہے۔ دو سالہ کارکردگی اتنی خوش کن ہے کہ لوگ جان جائیں تو خوشی سے مر جائیں، چنانچہ حکومت نے عوام کوبے وقت موت سے بچانے کے لیے نوازشریف کی واپسی کا میلہ لگا دیا ہے تاکہ کسی کا دھیان کارکردگی کی طرف جائے ہی نہیں۔ چنانچہ سارا گیان دھیان اب نوازشریف کی واپسی پر ہو گیا، یوں حکومت نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ عوام کی خیر خیریت ہی اس کا سب سے بڑا مشن ہے۔

ویسے یہ نکتہ اتنا بھی درست نہیں۔ دراصل تو کچھ یوں ہے کہ یہ حکومت تاریخ کی پہلی حکومت ہے جس کی کاکردگی کی رپورٹ گھرگھر میں یعنی ایک ایک گھر میں بہ تمام و کمال پہنچ چکی ہے۔ ہر صبح کا آغاز اس کارکردگی کی تعریفوں سے ہوتا ہے اور رات کو بھی لوگ شب بخیر کہنے کے بجائے اس کارکردگی کے قصیدے پڑھ کر سوتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بات بھی پتہ چل گئی ہے کہ جب عمران خان نے کہا تھا کہ ترقی میں سڑکیں پل بنانے اورترقیاتی کام کرنے سے نہیں آتی تو اس کا مطلب کیا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ ترقی ٹیکس ادا کرنے سے آتی ہے۔ چنانچہ حکومت اس مفہوم کی ترقی کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے تھی۔ کابینہ کا اجلاس جب بھی ہوتا ہے تو اس کی خبر کیساتھ یہ خبر بھی آتی ہے کہ فلاں مہینے سے زیادہ اس مہینے میں ٹیکس ادا کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دال ماش ہی کو دیکھ لیجئے۔ دو سال پہلے یہ پونے دو سو روپے کلو تھی، اب ترقی کرتے کرتے پونے چار سو روپے کلو تک پہنچ چکی اور ترقی کا سفر ابھی جاری ہے۔ یعنی ترقی کے مزید تین سال باقی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے اور حکومتی ارکان اسمبلی اور وزیروں مشیروں نے مختلف اشیاء کی مد میں ان دو برسوں تک اور ان عوام کی جیبوں سے چھ ہزار ارب نکلوائے ہیں۔ شاید آپ کو یہ ا صطلاح سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا ہے تو وہ مشہور زمانہ ڈائیلاگ یاد کرلیجئے جو کسی مافیا کے ڈان نے کسی فلم میں ادا کیا تھا۔ فرمایا کہ دھندہ بے ایمانی کا ہے لیکن ایمانداری سے کرنا پڑتا ہے۔ ایسی تشریح کہ حکومت ایمانداروں کی ہے، سر سے پائوں تک، یہاں سے وہاں تک، ایمانداروں کا اتنا بڑا ہجوم چشم فلک نے پہلے کہاں دیکھا ہوگا۔ اس سے قبل تو سبھی کرپٹ اس قوم پر مسلط تھے۔

دسیوں ہزار ارب کی رقم وصولیاب ہونے کے بعد لوگوں کو سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ ایک وزیر کے اس دعوے پر تنقید کرنے کی ضرورت نہیں رہی کہ عمران خان آئے گا تو پہلے ہی باہر سے دو سو ارب واپس لائے گا۔ اس لیے کہ جب دسیوں ہزار ارب اہل وطن کی جیب سے مل گئے تو پھر اتنی حقیر رقم باہر سے لانے کی زحمت کیوں کی جائے؟

نوازشریف کو واپس لانے کے شور کے ساتھ حکومت نے ایک بار پھر این آر او نہ دینے کی للکار بھی تیز کردی ہے۔ این آر او کی بحث پر بھی کتاب لکھنے کی ضرورت ہے جس میں ہر قسم کے این آر اوز کا تفصیلی ذکر ہو اور یہ بھی بتایا جائے کہ سب سے بڑا این آر او کون سا ہے۔ مثلاً اس بات پر تو اتفاق رائے ہے کہ این آر او نہیں دیا گیا۔ اپوزیش نے بار بار مختلف انداز میں مانگا لیکن کسی کو بھی یہ نہیں دیا گیا۔ تازہ این آر او نیب قوانین میں ترمیم کر کے مانگا گیا۔ کچھ مزید تاریخی این آر اوز کا تذکر بھی اس میں شامل کیا جائے۔ یاد رہے کہ این آر او دینا حرام ہے، جب عمران خان اقتدار میں ہے تب تک کسی کو بھی این آر او نہیں مل سکتا۔

وزیراعظم کے حکمت کار نے اعلان کیا ہے کہ وہ بھارت پر ایسے بم برسائے گا جوصرف ہندوئوں کو ماریں گے، مسلمانوں کو چھوڑیں گے۔ ضروریہ بم خاص نسخے کے زور سے بنائے گئے ہوں گے، ساری ساری رات ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر، جبھی ان میں یہ شکتی آ گئی کہ ہندو کو الگ پہچان سکیں اور مسلمان کو الگ؟ صاحب، یہ بتائیے، آپ کا بنایا ہوا یہ بم منافق کی پہچان بھی کرسکتا ہے کہ نہیں؟

Check Also

Kya Sinfi Tanaza Rafa Hoga?

By Mojahid Mirza