اسد عمر کا اعلان فتح
وفاقی کابینہ کے اجلاس کی خبر اخبار میں چھپی ہے۔ لکھا ہے، وفاقی وزیر اسد عمر نے اجلاس کو بتایا کہ کورونا کے خلاف ہمارا سمارٹ لاک ڈائون پروگرام بہت کامیاب رہا، آنے والے مہینوں میں کورونا کے کیسوں کی گنتی بہت اوپر جائے گی۔ بہت عمدہ، دو فقروں میں ساری کہانی بتا دی۔ آپ لوگ سمجھ تو گئے ہوں گے وزیر موصوف نے "کامیابی" کا دریا دو فقروں کے کوزے میں سمو دیا۔ کامیابی کی مزید تشریح یہ ہے کہ مریضوں کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے تیرہ اور مرض کے پھیلائو کی رفتار کے اعتبار سے چار چوٹی کے ملکوں میں شامل ہوگیا۔ اس عدیم النظیر کامیابی پر اسد عمر اور سبھی لوگوں کو انٹ بدھائی۔ ٭٭٭٭اجلاس میں وزیراعظم نے شوگر بحران کے حوالے سے کہا کہ وہ انہیں ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ شوگر بحران کے بعد سے اب تک ان کا کسی کو نہ چھوڑنے کا یہ ایک سوواں اجلاس ہے۔ گویا پلاٹینیم جوبلی مکمل ہو گئی۔ امید ہے، اب وہ اس اعلان پر عملدرآمد کے لیے بھی ذہن بنا لیں گے۔ ویسے اس سے ان کی کیا مراد ہے؟ کیا وہ اجلاس جس میں چینی کی بیرون ملک برآمد کی اجازت دی گئی یا پنجاب کی وہ ذات شریف جس نے سب سڈی دی؟ ایسا ہے تو سبحان اللہ، اگر کوئی اور مراد ہے تو پھر اللہ ہی اللہ۔ یہ بتلایا جائیے کہ یہ قیمت اتنی ہی رہے گی یا مزید بڑھے گی۔ اگر کم نہیں کرنی تو گویا مل مالکان نے درست اضافہ کیا، پھر غلط کیا ہوا؟ اور کیا دوائوں کے مافیا کے خلاف بھی کارروائی ہوئی جس نے دوائیں پانچ گنا مہنگی کردیں؟ آٹے کی قیمت ہفتہ وار بڑھ رہی ہے، اس کا بھی کہیں ذکر نہیں۔ اور ہاں، لیجئے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پٹرول مہنگا ہورہا ہے۔ گویا پچھلے تین ہفتے سے تیل جو پراسرار طور پر نایاب ہو گیا تھا، لگتا ہے اس کا اشارہ یعنی کہیں اوپر سے آیا تھا۔ یعنی یہ کہ تیل چھپالو، ہم مہنگا کرنے والے ہیں، اربوں کی کمائی کا ذریعہ تھے۔ اب بتائیے، کون کس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ لطیفہ یہ ہے کہ پچھلے مہینے تیل پانچ سات روپے لیٹر سستا کرنے کا اعلان ہوا اور اس اعلان کے ساتھ ہی تیل غائب ہو کر ڈیڑھ سو روپے لیٹر تک بلیک میں ملنے لگا۔
وزیر خارجہ نے، گزشتہ ہفتے اپنا یہ کلام تازہ نشر فرمایا کہ بھارت کے سکیورٹی کونسل کا غیر مستقل ممبر بن جانے سے کوئی قیامت نہیں آ گئی۔ ظاہر ہے، ہمیں پہلے ہی پتہ تھا کہ قیامت نہیں آئے گی۔ 193 ملکوں میں سے 184 نے بھارت کی مدد کی۔ ہم نے عظیم سفارتی کامیابی حاصل کی۔ ایسی سفارتی کامیابیاں مودی کے یار نوازشریف کے نصیب میں کہاں تھیں۔ ان کے دور شاعری میں اس سے پہلے بھی عظیم سفارتی کامیابی مل چکی ہے۔ اگرچہ ان کامیابیوں کا سہرا تو ان کے قائد کے سر ہے لیکن دو چار پھول پتیوں پر ان کا بھی تو حق ہے۔ ڈیڑھ پونے دو سال پہلے قائد محترم امریکہ گئے اور صدر ٹرمپ سے تاریخی ملاقات کی۔ اس تاریخ ساز ملاقات میں تاریخ سازی ہوئی۔ یہ کہ کشمیر تمہارا، اس پر ٹویٹ کرنے کا حق ہمارا۔ اب ملاحظہ فرمائیے، نریندر مودی فوراً مان گئے اور ہمیں سال کے سال ایک عدد ٹویٹ کرنے کی اجازت دے دی۔ مودی سے یہ تاریخی اجازت نامہ حاصل کرنا عظیم ترین سفارتی کامیابی تھا اور ظاہر ہے، مودی کا یار تو ایسی کامیابی کے عشر عشیر کا بھی نہیں سوچ سکتا۔ اس عظیم تاریخ ساز مفاہمت کا تھوڑا سا کریڈٹ بہرحال وزیر خارجہ، کو ہی جاتا ہے۔
قبلہ مولانا طاہرالقادری خاصے طویل عرصے کے بعد ایک وڈیو پیغام کے ذریعے منظر عام پر آئے ہیں۔ ویڈیو میں شکوہ کیا ہے کہ عمران خان ہمیشہ سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزموں کو سزا دینے کا وعدہ کرتے تھے، میرے ساتھ کھڑے ہو کر بھی یہ وعدہ کیا لیکن اب وہ حکمران بن گئے تو اس سانحے کا نام تک نہیں لیتے۔ قبلہ ایسا نہیں ہے۔ یاد پڑتا ہے آج سے سترہ اٹھارہ مہینے پہلے ایک بار انہوں نے سانحہ ماڈل ٹائون کا نام لیا تھا۔ کیا اتنا کافی نہیں؟ ویسے قبلہ، آپ بھی جانتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹائون دراصل تھا کیا۔ خود آپ وزیراعظم بن جائیں، تب بھی اس کے ملزموں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ ہاتھ ڈالنا تو دور کی بات ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اتنا ہی غور کرلیجئے کہ سانحے کے ملزموں کا ایک بڑا نام آج کہاں ہے۔ تب وہ بڑا افسر تھا، عمران کی حکومت نہیں اب اس سے بڑا افسر ہے۔ اس سے زیادہ کیا سمجھا جاسکتا ہے۔
چند روز پہلے ٹی وی پرایک شخص نے فرمایا کہ میں نے پی ٹی آئی کو ووٹ نہ دے کر جہالت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان کا یہ اعتراف ان کے اکیلے کا نہیں ہے اوروں کا بھی یہی کہنا ہے۔ ایک کا فرمانا تھا کہ خان صاحب خود تو اچھے ان کی ٹیم نالائق ہے۔ ایک اور نے فرمایا، خان صاحب بہت اچھے، بہت قابل ہیں۔