انگڑائی جو سو گئی!
پچھلی بار ارباب اقتدار کے اصحاب کشف ہونے کا ذکر کیا تو اس پر اعتراض آ گیا۔ یہ کہ محض کشف کا ذکر کیوں، کرامت بھی تو بتائے۔ ارے بھائی صاحب، کرامت کوئی ایک ہوتی تو بتاتے۔ یہاں تو کوہ کرامات ہے بلکہ سلسلہ ہائے کوہِ کرامات ہے۔ لیکن اب اعتراض آ گیا ہے تو چلئے، ایک تازہ وارد ہوئی کرامات سن لیجیے۔ وزیر اعظم نے خود اس کا ذکر کیا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے دو اڑھائی برسوں میں ملک کے ذمّے 35ہزار ارب روپے ادا کر دئیے۔ بہت بڑی کرامت ہے۔ 2018ء میں ملک پر قرضوں کا کل حجم 30ہزار ارب روپے تھا۔ اس میں سے 35ہزار ارب واپس کر دیے۔ باقی قرض کتنا رہ گیا؟ جی، صرف45ہزارارب روپے۔ بات سمجھ میں نہیں آتی؟ پھر سے سنئے، 30ہزار ارب میں سے 35ہزار ارب نکالے تو باقی بچے 45ہزار ارب روپے۔ اب بھی نہیں سمجھے، ارے بھائی، یہی تو کرامت ہے اور وہ کرامت ہی کیا جو ہر کسی کو سمجھ میں آ جائے۔
٭یہ خبریں تو آئے دن چھپتی ہیں کہ ملک بھر سے کم عمر بچوں کے اغوا اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے اور یہ بھی چھپ چکا ہے کہ اضافہ کئی گنا کا ہے لیکن کسی اخبار نے حالیہ عرصے میں ہونے والے واقعات کی تفصیل نہیں چھاپی۔ شاید اس لئے کہ مثبت رپورٹنگ کا قانون نافذ ہے، ہلکے پھلکے اشارے ہی شائع ہو سکتے ہیں۔ بہرحال ایک اخبار نے لاہور کی حد تک بچوں کے اغوا کی تفصیل چھاپ دی ہے۔ پچھلے تین برس کے دوران، اس اخبار کے مطابق 121بچے اغوا ہوئے اور ان میں سے ایک کا بھی سراغ نہیں مل سکا۔ اخبار نے ان تمام اغوا ہونے والے بچوں کے نام اور رہائشی علاقے بھی دیے ہیں اور آخر میں پولیس کا موقف بھی دیا ہے کہ وہ ان کی بازیابی کے لئے پوری کوشش کر رہی ہے۔ پوری کوشش کی وضاحت رپورٹر نے خبر کے شروع میں یہ لکھ کے کر دی ہے کہ ان بچوں کی فائلیں بند کر دی گئی ہیں۔ یعنی قصہ پاک، خبر کا یہ فقرہ البتہ غلط ہے کہ مائوں کی آنکھوں کے آنسو بھی اب خشک ہو گئے۔ مائوں کے آنسو کبھی خشک نہیں ہوا کرتے۔ اسی روز کوئٹہ سے خبر چھپی کہ کسی بدبخت نے گھر میں گھس کر تین بچے ذبح کر دیے۔ ان کی عمریں 5سے 10سال تک تھیں۔ قاتل گرفتار نہیں ہو سکا۔ ظاہر ہے پولیس فائل بند کر کے پوری کوشش کر رہی ہو گی۔ اخبار کسی روز کا ہو، بچوں کے قتل کی خبر سے خالی نہیں ملے گا۔ لاہور سے پشاور تک، کوئٹہ سے ملتان تک ہر روز ایک نہ ایک بچہ اور کسی روز دو بھی ضرور قتل ہوتے ہیں۔ کوئی اغوا کے بعد قتل ہوتا ہے، کوئی اغوا کے دوران ہی مار دیا جاتا ہے، بہت سوں کی نعشیں ادھر ادھر سے ملتی ہیں۔ قصور کی معصوم زینب کی یاد آتی ہے تو ساتھ ہی ریاست کی وہ قیامت خیز انگڑائی بھی یاد آ جاتی ہے جو اس نے زینب کے قتل پر لی تھی اور اس انگڑائی کے بعد اس پر ایسا خمار چھایا کہ پلکیں پہلے بوجھ ہوئیں، پھر نیم باز، پھر پوری بند۔ اب اس کے بعد پر شور قیامت برپا ہے لیکن پلکیں کھلنے کے کچھ آثار نہیں، دور دور تک، ذرا بھی نہیں بالکل بھی نہیں۔
٭تین چار سال پہلے ہی کی بات ہے۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب قصور میں یہ سانحہ پیش آیا تھا۔ ننھی منّی زینب کو کسی شقی نے درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔ قصور میں اس سے پہلے بھی بچوں کا قتل ہوا تھا۔ سانحے پر اخبارات نے ذمہ دار پریس ہونے کا حق ادا کر دیا۔ مہینہ بھر ہر روز اخبار کی شہ سرخی زینب ہی کی لگتی رہی، اتنا ہی عرصہ ہر ٹی وی کا ہر شو زینب کے لئے وقف تھا۔ ریاست کا ہر ستون ہل کر رہ گیا۔ ہر اینٹ لرز کر رہ گئی۔ ریاست کا کون سا ایسا "بزرگ" تھا جو قصور نہ پہنچا ہو یا جس نے "نوٹس" نہ لیا ہو اور بیان نہ دیا ہو۔ ذمہ دار شہریوں کے ہجوم شہر در شہر نکلے اور برسر اقتدار مسلم لیگ سے وابستہ رہنمائوں کے گھر اور ڈیرے جلا ڈالے، جہاں کوئی وزیر نظر آیا، حملہ کر دیا اور مظلوم زینب سے ہمدردی اور یک جہتی کا ٹھوس اظہار کیا۔ پریس یعنی میڈیا نے تاریخی کردار ادا کیا اور کچھ چینلز نے تو تاریخی کردار کے ریکارڈ قائم کر دیے۔ صاف بتا دیا کہ ملزموں کا کھرا برسر اقتدار پارٹی کے رہنمائوں کی طرف جاتا ہے۔ ایک چینل نے تو "برادران" کا نام لئے بغیر اشاروں کنایوں میں بتا دیا کہ یہ ایک "کلٹ" ہے جو بچوں کو اغوا اور قتل کر کے ان کی فلمیں اربوں ڈالر میں عالمی منڈی کو بیچ دیتا ہے۔ لندن کی جائیدادیں یونہی نہیں بن گئیں۔ حکومت بالآخر نااہل قرار دے کر ختم کر دی گئی اور مظلوم زینب کو انصاف مل گیا۔ اس کے بعد برسوں میں ہر روز کے حساب سے بچے، بالکل زینب جیسے، زینب ہی کی طرح مظلومانہ قتل ہوئے اور کئی دن تو دو دو بھی قتل ہوئے۔ لیکن کسی کے نصیب میں شہ سرخی تو کجا، دو کالم کی سرخی بھی نہیں آئی۔ صرف سنگل کالم، چند سطریں اور وہ بھی صفحہ آخر کے لوئر ہاف میں۔ ریاست کے تمام ستون استحکام کی نیند سو گئے، ہر اینٹ جمی رہی۔ کوئی بزرگ کہیں آیا نہ گیا۔ ہم نے کچھ دیکھا نہ سنا کی تصویر بن گیا۔ انگڑائی۔ ظالم انگڑائی۔ لگتا ہے یہ قیامت خیز انگڑائی ایک ہی بار لی گئی، "انصاف کے دیگر تقاضے" پورے ہونے کے بعد تاریخ کا حصہ بن گئی اور ریاست سکون کی لمبی نیند سو گئی۔ سرہانے اس کے آہستہ بولو، ابھی تک ہنستے ہنستے سو گئی ہے۔ !