ایک اور ناکام جلسی
حسب توقع وزرائے کرام نے کراچی میں بھی اپوزیشن کی "جلسی" کو ناکام قرار دے دیا۔ ایک بلند پایہ وزیر نے اسے ناکام ہی نہیں، نامراد بھی کہا۔ یہ نامراد والی رعایت لفظی شاید وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے نام کی مناسبت سے استعمال کی گئی۔ ویسے مراد علی شاہ نامراد نہیں، بامراد وزیر اعلیٰ ہیں او شاید چاروں صوبوں میں اکیلے وزیر اعلیٰ ہیں جو سکیورٹی کے بغیر بھی عوام میں جا سکتے ہیں۔ مخالف جماعتوں کے لوگ بھی ان کی عزت کرتے ہیں۔ بہرحال، پی ٹی آئی کی اپنی ڈکشنری ہے، ان کے نزدیک الفاظ کے وہی معنے معتبر ہیں جو اس لغت میں لکھے ہوئے ہیں۔ وزرا نے جلسے کو ناکام اور نامراد تو کہا لیکن گنتی نہیں بتائی جبکہ گوجرانوالہ کے جلسے کی گنتی بتا دی تھی، مبلغ اڑھائی ہزار۔ کراچی کے جلسے کی گنتی نہ بتانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں تعداد اڑھائی ہزار سے کچھ زیادہ ہی رہی ہوگی۔ شاید ساڑھے پچیس سو یا شاید چھبیس سو۔ میڈیا نے جتنا وقت اس جلسی کی کوریج کو دیا، اس سے زیادہ دن بھر، دوران جلسہ اور جلسے کے بعد وزیروں اور ترجمانوں کو دیا۔ میڈیا کی آزادی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا۔ دریں اثنا جلسے کے بہت سے مقررین کی آواز "میوٹ" کی جاتی رہی، آزادی صحافت کا دوسرا، منہ بولتا ثبوت۔
"جلسی" میں تمام صوبوں اور قومیتوں کی قیادت موجود تھی یوں یہ جلسہ قومی وحدت کا نمونہ بن گیا۔ اشرافیہ اور اشرافیہ کی جماعتیں مخالف کیمپ میں تھیں۔ جماعت اسلامی جو اشرافیہ کی پارٹی نہیں ہے، غریب اور مڈل کلاس پر مشتمل ہے، غیر جانبدار رہنے پر مصر ہے۔ یوں اب ملک میں تین بیج ہو گئے۔ ایک اشرافیہ کا، دوسرے عوامیہ کا، تیسرا چھوٹا سا جماعت اسلامی کا۔
"جلسی" سے پہلے کیپٹن (ر)صفدر نے مزار قائد پر قائد اعظم زندہ باد، مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے۔ جس پر عوام سخت برہم ہوئے۔ اگلی صبح انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار کس نے کیا، سندھ حکومت لاعلم ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کچھ سرکاری افسران کو کہیں لے جا کر کچھ لوگوں کی زیارت سے مشرف کیا گیا۔ پھر گرفتاری ہو گئی۔ مزار پر نعرے لگانا قانونی جرم ہے، کچھ عرصہ پہلے ایک ٹک ٹاکر نے مزار قائد پر ہوشربا رقص کیا تھا جس کی ویڈیو عوام میں خوب وائرل ہوئی۔ اس کے خلاف کارروائی ہوئی یا نہیں، علم نہیں۔ مزار قائد پر نعرے بازی جرم ہے۔ کوئی زیادہ عرصے کی بات نہیں، پی ٹی آئی کے کارکنان نے حرم شریف میں گو نواز، گو، نواز شریف مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے تھے۔
مسلم لیگ کے رہنما محمد زبیر کی اطلاع ہے کہ کیپٹن (ر) صفدر پر درج مقدمے کے مطابق ان کی گرفتاری مزار قائد پر نعرے بازی نہیں، کچھ اور وجوہات کی بنا پر ہوئی۔ دلی آزاری بری بات ہے۔
اپوزیشن کی جلسیوں سے حکومت ذرا بھی پریشان نہیں۔ البتہ وزیروں کے بیانات میں پریشانی کی جھلک کبھی کبھار کوند جاتی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کو انتباہ کیا کہ تحریک کے نتیجے میں نظام کو کچھ ہوا تو اپوزیشن کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔ حسن ظن رکھنا چاہیے کہ وزیرصاحب نے مارشل لاء کی دھمکی نہیں دی۔ وہ جمہوریت پسند ہیں، مارشل لاء کی دھمکی کیسے دے سکتے ہیں۔ ویسے بھی مارشل لاء لگنے کا دور اب ناقابل واپسی ہو چکا۔
ایک اور قد آور وزیر، شیخ رشید نے مسلم لیگ ن پر پابندی کی فرمائش بانداز انتباہ کر ڈالی ہے۔ فرمائش یا حسن طلب کا مخاطب کون ہے، شیخ صاحب ہی جانتے ہوں گے۔ شیخ صاحب "غائب" کا علم رکھتے ہیں "حاضر" سے چنداں واقفیت نہیں۔ چنانچہ فرمائش نامکمل العمل ہے۔ شیخ صاحب "حاضر" کا علم بھی حاصل کریں اور دیکھیں کہ چوک چوراہے گلی بازار میں کیا گفتگو ہو رہی ہے۔ لیکن انہیں بھیس بدل کر جانا ہو گا۔
شیخ جی بزرگ ہیں بلکہ ان کی بزرگی پر شباب کا عالم ہے یعنی وہ بزرگ تر ہو گئے ہیں۔ اس لئے اگلے وقتوں کی بات کرتے ہیں۔ عاگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہوانہوں نے فرمایا، نواز شریف نے اپنا سیاسی جنازہ نکال دیا۔ بزرگی کی وجہ سے یاد نہیں رہا کہ یہ بات وہ پچھلے دس برس سے ہردوسرے ہفتے کرتے آ رہے ہیں۔ وہ نواز شریف کے اب تک کل ملا کر تین سو جنازے نکال چکے ہیں۔ ان پر طاری شدید بزرگی انہیں یہ بات سمجھنے نہیں دیتی کہ حالات میں جوہری تبدیلی آ چکی ہے۔ نواز شریف نے جس طرح کا میدان جنگ چاہتے تھے، تیار ہو چکا ہے جو فضا بنانا چاہتے تھے، وہ بن چکی ہے۔ شیخ صاحب نے نوٹ نہیں فرمایا، ووٹ کو عزت دو کے ٹیپ کے بند والا ایک ترانہ چل رہا ہے جس کی لے اونچی ہوتی جا رہی ہے۔ دو برس پہلے یہ نعرہ اکیلے نواز شریف نے لگایا۔ اب ملک کی گیارہ جماعتیں ملکر اس نعرے میں ہم آواز ہیں۔ پنجاب سمیت!
ایک ہونہار وفاقی وزیر نے اپوزیشن پر حملہ آور ہوتے ہوئے غالب کے شعر پر قبضہ جما لیا۔ اس پر سوشل میڈیا میں لے دے ہوئی۔ ارے بھئی، یہ دور قبضے کا ہے یار لوگوں نے حکومتیں ہتھیا لیں، یہ تو پھر بھی محض ایک شعر ہے۔ وہ دور آیا ہے کہ رام نام جپنا، پرایا ووٹ اپنا اور پرایا شعر بھی اپنا۔
وزیر اعظم نے اب نہیں چھوڑوں گا کے عنوان سے خطاب فرمایا اور بتایا کہ ادارے میرے ساتھ ہیں۔ لوگوں نے اس پر بھی شغل میلہ لگا لیاحالانکہ وزیر اعظم محض یہ کہنا چاہتے تھے کہسب ادارے ایک ساتھ ہیں۔