2002ء پہلے آیا‘ پھر 2001ء آیا
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ فرنس آئل کے ہر جہاز پر ایک ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ بات درست ہے تو کرپشن کی رفتار کم ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ایل این جی کے بجائے فرنس آئل سے بجلی بنانے کے عوض چالیس پچاس ارب روپے کی رشوت کس نے وصول کی ہے۔ یہ چالیس پچاس جہاز ہو جائیں گے، تب جا کے اصل زر وصول ہو گا، نفع بعدازاں شروع ہو گا۔ اب ہم جیسوں کو کیا پتہ کہ ایک جہاز کے بعد دوسرا جہاز کتنے دنوں بعد آتا ہے۔ اطلاعات کے بعد رشوت وصولی کے بعد ہی ایل این جی کا بحران پیدا ہوا اور لوڈشیڈنگ نے اندھیر مچایا۔
٭تبدیلی ایک یہ بھی آئی ہے کہ پاکستان غذائی اجناس برآمد کرنے والے ملک سے ترقی کر کے غذائی اجناس درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ گندم، چینی اور دالیں دھڑا دھڑ درآمد کی جا رہی ہیں۔ اکیلی گندم ہی 30لاکھ ٹن ابھی اور دس لاکھ ٹن بعد میں درآمد کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور بھی بہت کچھ درآمد ہو رہا ہے۔ خیر ہمیں حکومت کے اس دعوے پر بلا شک و شبہ ایمان لانا چاہیے کہ موجودہ دور میں درآمدات کم اور برآمدات بڑھی ہیں۔ درآمد صرف غذائی ہی نہیں، غیر غذائی اشیا کی بھی بڑھی ہے۔ مثلاً کپاس کی۔ کپاس کی فصل ان اڑھائی پونے تین برسوں میں 38فیصد کم ہوئی ہے۔ چالیس فیصد ہی سمجھیے۔ اگلے برس پچاس فیصد ہو جائے گی، چنانچہ کاٹن انڈسٹری کے لئے کپاس کی درآمدات بڑھتی چلی جائیں گی۔ اندرون ملک کپاس کاشت کی حوصلہ شکنی کے لئے پھٹی اور بنولے پر 17فیصد ٹیکس لگا دیا ہے۔
امید ہے کپاس کی کاشت کا قلع قمع کرنے کا ہدف جلد حاصل ہو جائے گا۔ ایک سکینڈل سینہ گزٹ تو کافی دیر سے ہے لیکن اس ہفتے ایک اخبار نے یہ چھوٹی سی خبر چھاپ ہی دی کہ کپاس کی فصل کو نقصان پہنچنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایک رہنما کی فرم نے غیر قانونی اور ناقص ہائبرڈ بیج کاشتکاروں کو بیچے۔ بیج ضرور ناقص ہوں گے لیکن اس میں کسی وزیر کا کچھ قصور نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی والے تو نہایت ایماندار لوگ ہیں اور دینا معترف ہے کہ اس نے آج تک اتنے ایماندار اکٹھے ایک ہی جماعت میں کبھی نہیں دیکھے۔ لگتا ہے یہ نواز شریف کی سازش ہے، یہ ناقص بیج ضرور ایون فیلڈ میں تیار کئے گئے ہوں گے اور وہاں سے رائیونڈ لائے گئے ہوں گے۔ جہاں ان پر مذکورہ ایماندار وزیر کی فرم کے جعلی لیبلوں والے پیکٹوں میں بند کر کے کسانوں کو ٹھگا گیا۔ ایون فیلڈ والی بات کو تقویت اس لئے بھی ملتی ہے کہ پچھلے ہی ہفتے ایک اہم وزیر نے یہ انکشاف کیا تھا کہ مہنگائی کا ذمہ دار لندن میں بیٹھا ہوا، ایک شخص ہے۔ یعنی وہی ایون فیلڈ والا۔ وہ لندن میں بیٹھ کر مہنگائی کر سکتا ہے تو وہاں بیٹھ کر جعلی بیج کیوں نہیں بنا سکتا۔ امید ہے چیئرمین نیب صاحب نواز شریف کے خلاف کپاس کے جعلی بیج بنانے کا ریفرنس جلد دائر کریں گے۔
وزیر اعظم نے یہ بتا کر اپنے مداحین سے خوب داد لی کہ پرویز مشرف نے جب پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ کیا تو میں نے ڈٹ کر مخالفت کی تھی۔ عمر کا تقاضا ہے کہ اب میں گنتی بھی بھولنے لگا ہوں۔ یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ مال 2001ء پہلے آیا تھا یا 2002ء۔ بہرحال کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ پرویز مشرف نے امریکی جنگ میں کودنے کا فیصلہ 2001ء میں کیا تھا اور اگلے برس ریفرنڈم کرایا، جس میں خاں صاحب نے ڈٹ کر ان کی حمایت کی اور ان کے حق میں شاندار مہم بھی چلائی اور ایک موقع پر انٹرویو میں انہوں نے فرمایا تھا(جس کا کلپ قارئین نے سوشل میڈیا پر دیکھ لیا ہو گا) موجودہ حالات میں مشرف کا یہ فیصلہ بہترین ہے۔ ریفرنڈم کے بعد ان بن ہو گئی، کچھ وعدے تھے جو ایفا نہیں ہوئے اور سیٹ بھی وعدے کے برعکس ایک ہی ملی۔ خیر، میرا خیال ہے کہ 2002ء کا سال پہلے آیا تھا، 2001ء کا سن بعد میں آیا۔ خان صاحب سچے آدمی ہیں، غلط تو کہہ ہی نہیں سکتے۔ غلطی 2002ء کی تھی جو 2001ء سے ایک سال پہلے ہی آ گیا۔
٭قوم کو خوشخبری ہو کہ لوٹی ہوئی دولت جو پاکستان سے باہر چلی گئی تھی۔ بیشتر واپس آ گئی ہے۔ خان صاحب نے چار سال تک یہ اطلاع قوم کو دی کہ قوم کے لوٹے ہوئے 200ارب ڈالر باہر کے بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ کل ہی انہوں نے یہ خوشخبری دی کہ قوم کے لوٹے ہوئے دس ارب ڈالر باہر کے بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ یعنی 190ارب ڈالر واپس آ گئے۔ مبارک ہو۔
٭اڈے تو ہم نہیں دیں گے۔ فضائی حدود پہلے ہی سے امریکہ کے پاس ہے۔ قبلہ پرویز مشرف معاہدہ کر گئے تھے۔ بزرگوں کے کئے گئے معاہدے کو ہم کیسے منسوخ کر سکتے ہیں۔ اب امریکہ کی مرضی وہ کیسے فضائی کاریڈور اور دیگر سہولیات کا استعمال کرتے ہیں۔ مشکل دور ختم ہوا، اب مشکل ترین دور آنے والا ہے۔ مشکل گزر گئی تو ترین بھی گزر ہی جائے گا۔