1970ء کے رسالے
ہفتہ ڈیڑھ پہلے جناب ایچ اقبال کے لیے چند خیر مقدمی سطریں تحریر کی تھیں جن میں 70ء کی دہائی کے مختلف ڈائجسٹوں کا ذکر تھا۔ ایک واقف کاری تشریف لائے اور باتوں باتوں میں مذکورہ دہائی پر تبادلہ خیال کیا۔ فرمایا، وہ دہائی غالباً ڈائجسٹ رسالوں کے عروج کی دہائی ایک نہیں، دو تھیں یعنی 60ء اور 70ء کی دہائی، اور دوسرے یہ کہ صرف ڈائجسٹ نہیں، ہر طرح کے جریدوں کے عروج کے یہ آخری برس تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ان سب رسائل کو زوال آنا شروع ہوا اور اب بھی گو مارکیٹ میں درجنوں رسائل دستیاب ہیں لیکن وہ کثیرالاشاعت نہیں ہیں۔ زوال کا یہ سفر آہستہ آہستہ جب نئی ہزاری میں داخل ہوا تو انٹرنیٹ کا انقلاب چھا چکا تھا جس نے رسالوں کی اہمیت برائے نام کر کے رکھ دی۔ غنیمت ہے کہ اخبارات اپنا وجود سنبھالے ہوئے ہیں لیکن وہ دور گزر گیا جب اخبار بھی لاکھوں میں چھپا کرتے تھے۔ آبادی کئی گنا بڑھ گئی، قوت خرید والے بھی بڑھ گئے اور پڑھے لکھے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا لیکن صحافت اس کا ساتھ نہیں دے سکی۔ جرائد تو برصغیر کے گھرانوں میں بیسویں صدی کے اوائل ہی میں پڑھے جانے لگے تھے لیکن اس وقت ان کی تعداد بھی محدود تھی اور قارئین بھی۔ 1920ء کے بعد ان کی تعداد بڑھی اور معیار بھی، پھر تو صحافت کو پر لگ گئے۔ 1940ء کی دہائی میں پورے برصغیر پر اردو کے جرائد اور اخبارات چھائے ہوئے تھے جن کا مرکز زیادہ تر شمالی ہندوستان تھا یعنی کلکتہ، پٹنہ، لکھنو، الٰہ آباد، بجنور، دیوبند، دہلی، رامپور، علی گڑھ، بنارس، امرتسر، لاہور یہاں تک کہ منڈی بہائوالدین سے بھی صوفی ایسا رسالہ چھپتا تھا جو پورے برصغیر میں پڑھا جاتا تھا، اسی طرح سوہدرہ جیسے قصبے سے "مسلمان " نکلتا تھا اور اسی نام کا ایک اخبار مدراس سے جو اب چنائی کہلاتا ہے۔ 50ء کی دہائی میں اردو صحافت نے مزید عروج پایا، 60ء میں اس سے سوا اور 1970ء کی دہائی سب سے سنہری تھی۔ اس کے آگے زوال کی کہانی ہے۔ بات ڈائجسٹوں کی طرف نکل گئی تو اس محترم قاری نے سوال کیا کہ اردو جرائد میں سب سے زیادہ مقبولیت جاسوسی اور سری ادب کو حاصل ہے۔ اردو صحافت میں اس کا آغاز کس نے کیا۔ قاری کو مختصر جواب دیا لیکن محسوس ہوا کہ یہ بہت تفصیل سے بتائی جانے والی کہانی ہے۔ جہاں تک جاسوسی ادب کا ماجرا ہے تو وہ آغاز میں کتابی شکل میں شروع ہوا۔ الٰہ آباد اور کراچی سے یہ کتابیں چھپتی تھیں اور سب سے زیادہ نام اس میں ابن صفی نے کمایا۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ میں اگا تھا کرسٹی اور آرتھر کانن ڈائل کے نام کا طوطی بول رہا تھا لیکن برصغیر کے اردو قاری ان سے عموماً ناواقف تھے۔ یورپ میں اس کے متوازی سری ادب بھی خوب پھل پھول رہا تھا۔ میری شیلے کے فرینکنسٹائن کی دھوم تھی تو برام سٹوکر کے ڈریکولا کی۔ اور بہت سے نام تھے جنہوں نے قارئین کی مارکیٹ پر قبضہ کر رکھا تھالیکن پاکستان میں ان کے بارے میں بڑی حد تک ناواقفیت تھی۔ سری ادب میں خاص طور سے ان کہانیوں کو بہت زیادہ مقبولیت ملی جنہیں ڈرائونی یا ہارر کہانیاں کہا جاتا ہے۔ پھر ان میں ماورائی، عجیب و غریب (Weird) اور سائنس فکشن بھی شامل ہو گئےاور ان سب کہانیوں کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جا کر ایک دوسرے سے مل جاتے تھے۔ درجنوں امریکی اور برطانوی مصنف اس حوالے سے مقبول ہوئے۔ یورپ امریکہ کے رسالوں میں ہنری جیمز، ایم آرجیمز، ایڈگرایلن پو، ایچ پی لوکرافٹ، رابرٹ لوئس، رے براڈ بری اور بہت سے دوسروں کی کہانیاں چھپ رہی تھیں اور دھڑا دھڑ بک رہی تھیں۔ خاص طور سے رے براڈ بری اس لحاظ سے بہت ہی قابلذکر ہے کہ اس کی سائنسی کہانیوں میں تاثر کا عنصر بہت غالب تھا۔ اس کے پلاٹ، قلمکاری اور تاثر نے قارئین کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پاکستان میں لوگ ڈرائونی فلموں کے ذریعے اس صنف سے واقف ہوئے لیکن قارئین کو ان تحریروں سے اول اول واقفیت دلانے کاسہرا اردو ڈائجسٹ کے سر جاتا ہے۔ اس کا آغاز 1961ء میں ہوا۔ معمولی طباعت و کتابت کے باوجود اس کے مضامین کے انتخاب نے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر یہ ملک کا سب سے کثیر الاشاعت جریدہ بن گیا۔ یہ ہر مہینے ایک پراسرار کہانی، ایک سائنس فکشن، ایک سراغرسانی کی کہانی چھاپتا تھا۔ اس کی کامیابی دیکھتے ہوئے ایک اور رسالے نے اس کی پیروی کی۔ یہ معروف ادیب اردو دانشور، شاعر نعیم صدیقی مرحوم کا رسالہ ماہنامہ سیارہ تھا جو خالصتاً ادبی جریدہ تھا۔ انہوں نے اسکا ضمیمہ، "سیارہ ڈائجسٹ ایڈیشن" کے نام سے چھاپنا شروع کیا۔ تجربہ کامیاب رہا تو اسے باقاعدہ الگ رسالہ بنا دیا جو سیارہ ڈائجسٹ کے نام سے دس برس تک اردو ڈائجسٹ کیساتھ دوڑ میں شریک رہا۔ یہ دونوں پرچے لاہور کے تھے۔ انہی ابتدائی برسوں میں کراچی سے ایک رسالہ "انشا" کے نام سے چھپتا تھا۔ یہ رسالہ معروف دانشور اور فلسفی رئیس امروہوی اوران کے بھائی مشہور شاعر جون ایلیا نکالتے تھے۔ اردو ڈائجسٹمیں پراسرار کہانی کی مقبولیت کے پیش نظر انہوں نے بھی اپنے رسالے میں اس کا آغاز کیا اور ایک کے بجائے دو دو تین تین کہانیاں دینا شروع کردیں۔ انشا کا حلقہ قارئین زیادہ تر کراچی اور حیدر آباد تک محدود تھا لیکن ان کہانیوں کی وجہ سے یہ دائرہ وسیع ہوا تو مدیران نے پرچے کا نام بدل کر انشا عالمی ڈائجسٹرکھ دیا۔ اسے مزید مقبولیت ملی تو گٹ اپ اور طباعت کو بہتر بنا کے اس کے نام میں پھر ترمیم کردی گئی اور اب یہ محض "عالمی ڈائجسٹ" تھا۔ آہستہ آہستہ یہ صرف جاسوسی اور پراسرار کہانیوں کے لیے مخصوص ہو گیا اور اس کے حلقہ ادارت میں شکیل عادل زادہ اور زاہدہ حنا بھی شامل تھیں۔ کئی برس تک اس میدان میں اس کی اجارہ داری رہی پھر 1970ء یا شاید 1971ء میں شکیل عادل زادہ، اس سے الگ ہو گئے اور اپنے رسالے "سب رنگ ڈائجسٹ" کا اجرا کیا۔ اس میں انہوں نے ہندوستان کے پس منظر کی مافوق الفطرت اور ڈرائونی کہانیاں بھی شامل کیں۔ ہندوستانی بھوت بھتنے پاکستان میں بھی مقبول تھے کہ یہ ہمارے مشترکہ "ثقافتی ورثے" کا حصہ ہیں چنانچہ آغاز ہی میں اس نے عالمی ڈائجسٹ کو پچھاڑ دیا اور اشاعت کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ قارئین کو اس کا گرویدہ بنانے میں الیاس سیتا پوری کی تاریخی کہانی کا بھی بہت حصہ تھا۔ یہ جادو نگار مصنف تاریخی واقعات کو اس طرح داستان کی شکل دیتا تھا کہ قاری کہانی پڑھتا نہیں تھا بلکہ گویا ٹائم مشین کے ذریعے ماضی میں جا کر سب واقعات کو خود آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا تھا۔ سب رنگ ڈائجسٹ نے معیاری ڈرائونی کہانیوں کے انتخاب سے قارئین کو دیوانہ کرلیا لیکن اس کا یہ سفر محض دو اڑھائی سال ہی جاری رہا جس کے بعد اس نے سری ادب سے یکسر ناتا توڑ لیا اور عالمی ادب کا انتخاب پیش کرنا شروع کردیا۔ (جاری)