کڑا احتساب
عوام کی حیرتوں میں اگرچہ اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے لیکن وہ کسی وقت سنبھل کر سوچنے لگتے ہیں کہ اب کسی کو کیا کرنا چاہیے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہر لٹیرے کو اندر کر دو، کوئی کہتا ہے کہ اندر کر دینے سے کیا ہوتا ہے اس سے رقم وصول کرو جو اصل بات ہے اور کوئی کہتا ہے کہ پہلے رقم وصول کرو پھر اندر کردو۔
ان کے علاوہ ایک سزا ایسی بھی تجویز کی جارہی ہے کہ جو سیاستدان ڈاکو ثابت ہو جائے، اس کو سیاست یعنی امور مملکت سے ہمیشہ کے لیے دور کردو۔ کیونکہ کرپشن حکمرانوں کے ذریعے پھیلتی ہے، پھر ہماری ایک اور بدقسمتی یہ بھی ہے کہ احتساب کے لیے کس سے کہا جائے۔ کون ہے جو پہلا پتھر مار سکتا ہے، کس کا دامن اس قدرصاف ہے کہ وہ سینہ پر ہاتھ مار کر انصاف کر سکے۔
مرض بھی معلوم ہے اور مریض بھی معلوم لیکن ڈاکٹر کا پتہ نہیں چل رہا۔ اور جو ڈاکٹر سامنے نظر آرہا ہے اس کو نادیدہ ہاتھ ڈھیل دینے کو تیار نظر نہیں آتے، نہیں تو وہ اب تک کشتوں کے پشتے لگا دیتا اور قوم جان جاتی کہ احتساب کس چڑیا کا نام ہے۔ لیکن عوام کے ذہنوں میں یہ سوال کلبلا ہے کہ وہ کون ہوگا جو آزادی سے قوم کی لوٹی گئی دولت کا حساب لے سکے گا۔ اس سوال کے جواب کی تلاش ابھی جاری ہے۔
پاکستان کے باخبر حلقے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بااثر اور طاقت ور لوگ اس احتساب پر تیار نظر آتے ہیں اور کرپشن کو پاکستان کے لیے ایک عذاب گردانتے ہیں اور احتساب کے لیے سب سے موثر اور موزوں اداروں میں عدلیہ کو سر فہرست قرار دیا جاتا ہے۔ اصولی طور پر عدلیہ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا ایسا ادارہ نہیں ہے جو کسی کا احتساب کرنے کا اہل ہو۔ ہم نے نیب میں سیاستدانوں کی پیشیاں بہت دیکھ لی ہیں اور ان کا جو حشر ہوتا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس لیے اگر ملک میں کوئی قانون کی پابندی کرا سکتا ہے تو وہ عدلیہ کا ادارہ ہی ہے۔
ہم نے کل ہی دیکھا کہ جن لوگوں نے ملکی دولت کے سیکڑوں ارب لوٹ لیے تھے اور حکومت نے بھی ان کے آگے گھٹنے ٹیک کر ان کی معافی کے لیے صدارتی حکم جاری کر دیا تھا، عدالت نے حکومت کے اس حکم کو کالعدم قرار دے کر ان لٹیروں سے قومی دولت کو واپس لینے کا حکم جاری کیا ہے۔ ایک تازہ ترین مثال ہے کہ کس طرح پر امن طریقے سے اربوں روپے کی وصولی کو ممکن بنایا گیا ہے عدلیہ کے اس حکم کو دیکھتے ہوئے اگر ساتھ میں انتظامیہ کی مدد بھی حاصل ہو اور زیر احتساب اور لٹیروں پر واضح ہو کہ حکومت کی مشینری عدلیہ کی پشت پر اور اس کے حکم پر عملدرآمد کے لیے کمر بستہ ہے تو پھر بڑی شرافت اور شائستگی کے ساتھ لوٹ مار اوردن دہاڑے ڈاکوں کی رقم واپس آنی شروع ہو جائے گی۔ جیسا کہ گیس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں سامنے آیا ہے۔
ہم پاکستانیوں کے لیے کوئی راز نہیں تھا کہ ہمیں لوٹا جارہا ہے مگر کوئی شبہ تھا تو اس بات پر کہ کتنا لوٹا جارہا ہے اس طرح ہم پاکستانیوں کے لیے یہ بھی کوئی راز نہیں تھا کہ ہمیں کون لوٹ رہا ہے مگر کوئی شبہ تھا تو اس بات میں کہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے سیاستدان زیادہ لوٹ رہے ہیں یا خاموش زندگی گزارنے والے مسکین صورتوں والے گرگرے صنعتکار اور تاجر جو اپنی فنکاریوں سے مافیا کے روپ میں ہمیشہ لوٹ مار کا بازار گرم رکھتے ہیں۔ زیادہ مدت نہیں گزری کہ اچانک ہم پر بہت کچھ بے نقاب ہونے لگا ہے۔
اسمبلیوں کے ریکارڈ میں منہ چھپائے ہوئے اعدادوشمار، سرکارکے احتسابی محکموں کی فائلوں میں دفن اعدادو شمار یا ان لوگوں کے دلوں کو چیرنے والے اعدادوشمار جن کو ان کی مجبوری کی وجہ سے لوٹا گیا ہے۔ یکے بعد دیگرے سب کچھ خفیہ خانوں سے نکل کر باہر آرہا ہے اور ہمیں حیران و پریشان کر رہا ہے کہ ہم کس قدر دولت مند تھے کہ ہماری جیبوں سے اربوں کھربوں نکالے گئے مگر ہم پھر بھی زندہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیشہ یہ شرم بھی آتی ہے کہ اگر ہمیں اس طرح نہ نچوڑا جاتا تو ہم کشکول لے کر در بدر نہ ہوتے اور قرض خواہوں سے مزید رعاتیوں کے لیے ہاتھ پھیلانے کے بعد ان کی جانب سے انکار کی وجہ سے شرمندگی اور خفت نہ اٹھانی پڑتی اور اس سے کہیں زیادہ ہمارا لوٹا ہوا مال بیرون ملک کہیں پڑا ہے یعنی ہم کسی جن پری کی کہانی کی طرح بیک وقت روئے بھی اور ہنسے بھی۔
جس طرف بھی نگاہ دوڑائی جائے کوئی بڑا گھپلا ہی دکھائی دیتا ہے کسی نے بینکوں سے قرض معاف کرا رکھے ہیں تو کوئی سرکاری سودوں میں کمیشن وصولی کا ملزم ہے جس طرف نظر اٹھی آواز تری آئی والا معاملہ ہے۔ ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہو سکا کہ کس نے کتنا لوٹا ہے لیکن جس ماہر سے بھی بات کی جائے وہ دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مالیت بتاتا ہے اور بات اس قدر ننگی ہو گئی ہے کہ ہر کسی کی قیاس آرائی یا معلومات پر اعتبار کر لیا جاتا ہے کوئی جتنا بھی مبالغہ کرے یا جھوٹ ہی بولے اس پر یقین آجاتا ہے۔
احتسابی عمل میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کئی ایک نے اپنی بے گناہی کا اعلان کیا اور اپنی بے گناہی کے ثبوت دیے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ضمانتیں بھی ہو گئی ہیں، عین ممکن ہے کہ ان میں سے بعض واقعی بے گناہ ہوں اس لیے لازم ہے اور عدل و انصاف کا یہ تقاضاہے کہ ان لوگوں کو عدالت کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے جو بے گناہ ثابت ہوں انھیں فراخ دلی اور سیاسی انتقام کو ایک طرف رکھتے ہوئے باعزت طریقے سے بری کر دیا جائے۔ ہر کسی کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی روایت ختم کرنا پڑے گی تب ہی احتساب کا عمل شفاف دکھائی دے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے اور اس ادارے کا فیصلہ ہے جس کے اختیار کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا کہ اب احتساب ہوگا اور کڑا احتساب ہو گا اور بلا رو رعایت ہوگا۔