حیاتِ جاوداں کی تلاش
زندگی ایک عظیم نعمت ہے اور موت سب سے بڑی سچائی۔ ابتدائے آفرینش سے انسان کے اندر یہ تڑپ رہی ہے کہ کسی طرح اس زندگی کو جاری و ساری رکھا جا سکے۔ اس کا کبھی خاتمہ نہ ہو۔ میر تقی میرؔ نے اس انسانی خواہش کا کچھ یوں اظہار کیا، میرؔ عمداً بھی کوئی مرتا ہے۔ جان ہے تو جہان ہے پیارے۔ یعنی کوئی بھی اپنی خواہش اور مرضی سے موت کو گلے نہیں لگاتا حالانکہ ہر ایک کے ذہن میں یہ جاگزین ہے کہ یہ زندگی ہرگز ہرگز ابدی نہیں اس کو ایک مخصوص وقت پر جا کر ٹھہر جانا ہے یعنی موت نے اپنے وقت پر آ جانا ہے اور اس سے مفر نہیں۔
غالبؔ کہتے ہیں، موت کا ایک دن معین ہے۔ نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔ زندگی میں سیکڑوں رنج اور دُکھ ہوتے ہیں اور ساتھ ہی خوشی کے کئی لمحات۔ البتہ دکھوں کے مقابلے میں ایسی خوشی کبھی میسر نہیں آتی جو کم از کم ابتدا ہی میں لازوال نظر آئے۔
عصرِ حاضر حیرت انگیز تبدیلیوں کا وقت ہے۔ اب جینیاتی انجینئرنگGenetic Enginering کی روز افزوں ترقی ہمیں اس نہج پرلے آئی ہے جہاں بڑھاپے کو ٹالا بھی جا سکے گا اور اگر بڑھاپا آ ہی گیا ہے تو اسے واپس جوانی کی طرف لوٹایا جا سکے گا۔ دو جینیاتی انجینئروں نے اسپین میں اپنی کتا ب "موت کی موت" کی تعارفی تقریب میں یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ اگلے 25سالوں میں انسان اس قابل ہو جائے گا کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ اسے مرنا ہے کہ نہیں، دونوں سائنس دانوں نے دعویٰ کیا کہ 2045تک موت اختیاری ہو جائے گی اور بڑھتی ڈھلتی عمر اور جھریوں بھرے چہرے کو تر و تازہ بنا کر جوانی کی طرف لوٹا جا سکے گا۔
کارڈیرو Carderoاورڈیوڈ وُڈ David wood نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ حیاتِ جاوداں ایک حقیقی سائنسی ممکنات میں سے ہے اور شاید حیاتِ جاوداں حاصل ہونے کا ٹارگٹ اُس وقت سے بہت پہلے ممکن ہو سکے جو پہلے خیال کیا جا رہا تھا۔ کارڈیرو اور ڈیوڈ وُڈ کا کہنا ہے کہ اس سائنسی حقیقت کو پا لینے کے بعد انسان صرف حادثات میں مریں گے اور بڑھاپے یا بیماریوں کے نتیجے میں کبھی اگلی دنیا کو نہیں سدھاریں گے۔
دونوں سائنس دانوں کو یقین تھا کہ یہ ٹارگٹ 2045تک ضرور حاصل ہو جائے گا اس لیے ان دونوں نے بہت زور دے کر یہ تجویز دی کہ اقوامِ عالم، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور خاص کر تمام حکومتیں پیرانہ سالی کو ایک بیماری قرار دیں اور اس بیماری کے خاتمے کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کریں۔ فنڈز کی فراہمی ریسرچ کوتیزی سے آگے بڑھائے گی اور اس بیماری کا علاج ممکن ہو سکے گا۔
دونوں نامور جینیاتی انجینئروں نے اپنی Presentationمیں بتایا کہ پیرانہ سالی کو ریورس کرنے میں نینو ٹیکنالوجیNano Technology کا استعمال اور کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ ُبرے اور بیمار جینزGenesکو نئے اور صحت مند جین سے بدل دیا جائے گا۔ انسانی جسم سے مردہ سیلوں cells کو ختم کر دیا جائے گا اور Damage شدہ سیلوں کو Stem cellsسے علاج کر کے مرمت کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ تمام اعضائے رئیسہ کو 3D پرنٹ کر لیا جائے گا۔ اسپین نژاد کاڈیرو امریکا میں میسا چیوسٹ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں۔ جب کہ ڈیوڈ وُڈکا تعلق کیمرج برطانیہ سے ہے۔
کارڈیرو نے بتایا کہ خود اُس نے نہ مرنے کا انتخاب کیا ہے اور دعویٰ کیاہے کہ اب سے 30سال بعد وہ زیادہ جوان اور مضبوط ہو گا۔ ان دونوں نے تحقیق پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ بڑھاپا دراصل DNAڈی این اے کی دُم جسے TELOMERESٹیلومیرس کہتے ہیں اس کے چھوٹے ہو جانے سے جنم لیتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹیلومیرس بُھربھری ہونے پر جھڑنے لگتی ہے یوں اس کی لمبائی گھٹتی چلی جاتی ہے۔ اگر جسم میں ٹاکسنToxinsداخل ہو جائیں تو وہ بہت منفی کردار ادا کرتے ہیں اور ٹیلی میرس کی لمبائی گھٹانے کے پراسس کو تیز کر دیتے ہیں۔ سگریٹ نوشی، شراب نوشی، گندے ماحول اور غلیظ آب و ہوا ٹاکسن کا موجب بنتے ہیں۔
دونوں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگلے دس سال میں کینسر کا حتمی علاج دریافت ہو چکا ہو گا۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں دوا سازی کے میدان میں داخل ہو جائیں گی کیونکہ ان کو یقین آجائے گا کہ بڑھاپے کا علاج ممکن ہے اور جوانی کی طرف لوٹا بھی جا سکتا ہے اور جوانی کو سدا بہار بھی بنایا جا سکتا ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق مائیکروسافٹ کمپنی پہلے ہی ایک ایساسینٹر قائم کر چکی ہے جس میں کینسر پر بہت زور شور سے تحقیق ہو رہی ہے اور اُمید کی جا رہی ہے کہ 2020کے عشرے کے خاتمے سے پہلے کینسر کا علاج دریافت ہو جائے گا، مائیکروسافٹ کے ادارے نے حال ہی میں ایک ایسے مرکز کے قیام کا بھی اعلان کیا ہے جس میں انسانی خلیوں کو انتہائی کم درجہ حرارت پر منجمد کر کے رکھا جا سکے گا۔ انھوں نے مزید بتایاکہ عام لوگ شاید اس بات کو نہیں جانتے کہ 1951 میں ہی یہ پتہ چل چکا تھا کہ کینسر کے سیل ہمیشہ زندہ رہتے ہیں وہ مرتے نہیں۔
جینیاتی انجینئروں کا کہنا ہے کہ پیرانہ سالی کو شکست دینے کامطلب ہرگزیہ نہیں کہ زمین انسانوں سے بھر جائے گی۔ دونوں کے خیال میں ایک تو دنیا بھر میں شرحِ پیدائش کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ بہت سے یورپین ملکوں میں شرحِ پیدائش نہ ہونے کے برابر ہے، جاپانی اور کورین لوگوں کے ہاں زیادہ سے زیادہ ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر یہی ٹرینڈ رہا تو دو صدیوں بعد کوئی جاپانی یا کورین زمین پر موجود نہیں رہے گا۔
اس بات کا بھی بہت امکان ہے کہ جلد انسان اس قابل ہو جائے گا کہ دوسرے سیاروں پر آبادیاں قائم کر کے وہاں رہنا شروع کر دے۔ بڑھاپے کا علاج دریافت ہونے سے اس بات کا امکان بڑھ جائے گا کہ دو صدیاں بعد بھی جاپانی اور کورین زندہ ہوں اور زمین کو اپنے وجود اور قابلیت سے منور رکھیں کیونکہ یہ لوگ مریں گے ہی نہیں اور سدا بہار جوانی سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔
نینو ٹیکنالوجی ابتداء میں مہنگی ضرور پڑے گی لیکن جب اس کا استعمال عام ہو جائے گا تو اس کی لاگت میں نمایاں کمی آ جائے گی۔ شروع میں یہ علاج بہت مہنگا ہو گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ علاج بھی اسمارٹ موبائل فون کی طرح سستا ہونے کے امکانات ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پچھلے 4سال سے وہ اس طریقۂ علاج کو کولمبیا امریکا میں شروع بھی کر چکے ہیں اورآزما بھی رہے ہیں۔ بات چیت کے دوران یہ بھی پتہ چلا کہ ایلزبتھ نام کی ایک خاتون نے بڑھاپا آنے پر ان دونوں سے رابطہ کیا اور اب وہ زیرِعلاج ہے اور اس کے Telomeres کی عمر ان چار سالوں میں 20سال کم ہو چکی ہے اور ابھی تک کوئی منفی اثر نمودار نہیں ہوا۔
قارئینِ کرام اس ریسرچ کو اس لیے آپ کے سامنے لایا جا رہا ہے کیونکہ یہ دور رس نتائج کی حامل بہت ہی اہم ریسرچ ہے۔ اگر اس میں کامیابی ملتی ہے تو دنیا یکسر تبدیل ہو کر ایسی ہو جائے گی جس کا ابھی تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن کامیاب ریسرچ کو بھی ممکن العمل ہونے کے لیے بہت سے دوسرے عوامل کی مدد درکار ہوتی ہے۔
آپ کو یاد ہو گا آج سے کوئی چالیس سال پہلے برطانیہ کے چند سائنس دانوں نے ڈولی نامی ایک بھیڑ(sheep)کلون کی تھی اور اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ اب مستقبل میں کامیاب، صحت مند اور انتہائی ذہین افراد سے سیل لے کر ہزاروں لاکھوں کلون شدہ ویسے ہی انسان بنا لیے جائیں گے۔ ڈولی چند سال بعد مر گئی اور آج تک کوئی ایک فرد بھی کلون نہیں ہوا۔ بہر حال بڑھاپے کا علاج دریافت ہونا ایک بہت بڑی بریک تھرو ہو گی اور بقولِ اقباؔل محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔